عدالت عظمیٰ نے سینیٹر نہال ہاشمی کے متنازع بیان کے معاملے پر ان کے وکیل کی طرف سے مزید تحریری دلائل جمع کرانے کی استدعا مسترد کر دی ہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" کے عہدیدار کو ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اس بیان کا نامکمل مواد پیش کرنے پر متنبہ کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
مئی میں نہال ہاشمی کی ایک وڈیو ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئی تھی جس میں وہ وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کا احتساب کرنے والوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے تھے۔
یہ وڈیو ایسے وقت سامنے آئی تھی جب سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی تفتیش کر رہی تھی۔
گو کہ نہال ہاشمی کا موقف ہے کہ ان کا اشارہ عدلیہ یا تحقیقاتی ٹیم کی طرف نہیں بلکہ حزب مخالف کے راہنما عمران خان کی طرف تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس بیان کا از خود نوٹس لیا اور رواں ماہ ہی ان پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
پیر کو عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت شروع کی تو سینیٹر ہاشمی کے وکیل حشمت حبیب نے استدعا کی کہ وہ اپنے موقف کے حق میں مزید تحریری دلائل جمع کرانا چاہتے ہیں جس کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
اس پر بینچ کا کہنا تھا کہ تحریری جواب دیا جا چکا ہے اور اگر اس میں خامیاں ہوئیں تو مزید وقت دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
وکیل کا موقف تھا کہ ٹی وی چینلز نے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور انھوں نے چینلز کے خلاف بھی درخواست دے رکھی ہے۔
بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی اور سینیٹر نہال ہاشمی کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے گا۔
اسی دوران نہال ہاشمی کی ٹی وی پر نشر ہونے والی وڈیو کی ریکارڈنگ اور اس کا متن بھی عدالت میں پیش کیا گیا لیکن بینچ نے نشاندہی کی کہ یہ مواد مکمل نہیں ہے۔
معاملے کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے اپنے سینیٹر نہال ہاشمی کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت ختم کر دی تھی۔ نہال ہاشمی نے پہلے پارٹی کی طرف سے کہے جانے پر سینیٹ کی نسشت سے استعفی دے دیا لیکن جلد ہی انھوں نے یہ استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔