افغانستان میں امن و خوشحالی کے لیے قائم "ہارٹ آف ایشیا، استنبول پراسس" کے اسلام آباد میں ہونے والے پانچویں وزارتی اجلاس میں دہشت گردی کے خطرے اور اُن سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنے پر توجہ مرکوز رہی۔
بدھ کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر اس کانفرنس کا افتتاح کیا۔
اپنے افتتاحی خطاب میں وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایشیا میں امن و استحکام، افغانستان کے امن و استحکام سے مشروط ہے۔ 2011 میں کانفرنس کے قیام کے بعد سے اس کے اہداف کے حصول کے لیے پاکستان اپنا اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ اس خطے کے ممالک میں امن اور سلامتی کے بغیر سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول نہیں ہو سکتا اور کئی برسوں سے دہشت گردی کی زد میں رہنے والا خطہ تمام ملکوں سے مصمم اور مربوط ردعمل کا متقاضی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ہاں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے جب کہ قومی لائحہ عمل کے تحت بھی کارروائیاں جاری ہیں جس کے قابل ذکر نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ خطے میں ابھرتے ہوئے نئے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی موثر کوششیں کرنا ہوں گی۔
"داعش جیسے نئے اور زیادہ پرخطر دہشت گرد گروپوں کے خطرات کے تناظر میں دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم مزید پختہ ہونا چاہیئے۔ خطے کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم مل کر مربوط اور موثر اقدام کریں تاکہ دہشت گردی کے خلاف کوششیں دیرپا ثابت ہو سکیں۔"
پاکستانی وزیراعظم نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ "افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔" انھوں نے افغانستان میں افغانوں کی شمولیت اور افغانوں کی زیر قیادت مصالحتی عمل کی حمایت جاری رکھنے کا عزم بھی دہرایا۔
"ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے لیے کوششیں جاری رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جز ہے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ترقی کے لیے امن ضروری ہے اور پائیدار امن کے لیے ترقی بہت اہم ہے۔ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اپنے تمام ہمسایوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے، علاقائی روابط اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے۔"
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا ملک دنیا کے لیے دہشت گری کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے بقول تحریک طالبان پاکستان کے خلاف پاکستان کے بھرپور آپریشن کی وجہ سے یہ عسکریت پسند افغانستان میں داخل ہو گئے جن کے خلاف اب ان کی فورسز کارروائیاں کر رہی ہیں۔
"اب تک ہم اپنی اسپیشل فورسز کے ذریعے ان (تحریک طالبان پاکستان) کے خلاف 40 آپریشنز کر چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو علاقائی تعاون، حکمت عملی اور نگرانی کا نظام ہو جس سے دہشت گردوں کے رابطوں، ان کی معاونت کرنے والوں اور ان سے تعلق کا پتا چلایا جا سکے۔"
افغان صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان کو سلامتی، معیشت اور روزگار کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ پاکستان سمیت ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو افغانستان میں امن و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے پر پاکستان کا شکریہ تو ادا کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان میں ہونے والے واقعات کے باعث افغانستان کو بھی ساڑھے تین لاکھ سے پانچ لاکھ پاکستانی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنا پڑی ہے۔ ان کا اشارہ قبائلی علاقوں میں جاری شورش پسندی اور فوجی کارروائیوں سے ہونے والی نقل مکانی کی طرف تھا۔
اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون، تجارت اور رابطے بہت ضروری ہیں اور ان کے بقول اقتصادی ترقی کے علاوہ افغانستان میں امن کا کوئی راستہ نہیں۔
اجلاس میں شریک امریکی وفد کے سربراہ نائب وزیر خارجہ انتھونی جان بلنکن کا کہنا تھا کہ دنیا میں حالیہ دنوں میں ہونے والے دہشت گرد واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی اکیلے کسی ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک مشترکہ ذمہ داری جسے سب کو ادا کرنا ہوگا۔
ان کے بقول یہ اجلاس دنیا کے اس عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ افغانستان ساتھ کھڑی ہے۔
بلنکن کے کہا کہ ان کا ملک ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ امن و خوشحالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے علاقائی تعاون اور رابطوں کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔
اجلاس میں 14 رکن ممالک کے علاوہ 17 معاون ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار شریک ہوئے جبکہ 12 مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے ارکان کی بھی ایک نمایاں تعداد یہاں موجود تھی۔
کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی، ایران اور چین کے وزرائے خارجہ بھی پاکستان آئے ہیں۔
ہارٹ آف ایشیا-استنبول پراسس کا آغاز 2011ء میں کیا گیا تھا جس کا مقصد خطے خصوصاً افغانستان میں قیام امن کے لیے رکن اور حامی ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔