گلبدین حکمت یار 26 جون، 1947ء میں افغانستان کے صوبہٴ قندوز کے امام صاحب ضلع میں پیدا ہوئے۔ اُن کے آباؤ اجداد قبائلی سردار تھے۔ اُن کے والد، غلام قادر کا تعلق صوبہٴ غزنی سے تھا، جنھوں نے قندوز کی جانب ہجرت کی تھی۔
افغان تاجر اور خروٹی قبائلی سردار، غلام سرور ناشر نے بھانپ لیا تھا کہ حکمت یار ذہین بچہ ہے جسے تعلیم دلانی چاہیئے۔ ان کو سنہ 1968 میں مہتاب قلعہ فوجی اکیڈمی میں داخل کرایا گیا۔ لیکن دو سال کے اندر، اُن کے متنازعہ سیاسی خیالات کی وجہ سے، اُنھیں درسگاہ سے نکال دیا گیا۔ سال 1970 سے 1972ء تک اُنھوں نے کابل یونیورسٹی سے انجنیئرنگ میں تعلیم کے لیے داخلہ لیا، لیکن ڈگری مکمل نہیں کر پائے، جب کہ اُن کے چاہنے والے اب بھی اُنھیں’ انجنیئر حکمت یار‘ کہتے ہیں۔
اِسی عرصے کے دوران، حکمت یار نے افغانستان کی ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 1972 میں کابل یونیورسٹی میں ایک ماؤ نواز ساتھی طالب علم، سخن دان کے قتل کے الزام میں اُنھیں گرفتار کیا گیا۔ تاہم، عام معافی کے ایک پیکیج کے طفیل اُنھیں رہا کردیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب سنہ 1973ء میں شاہ ظاہر کے چچا زاد بھائی، داؤد خان نے شہنشاہ کا تختہ الٹ دیا۔
رہائی کے بعد، گلبدین نے ’سازمانِ جوانانِ مسلمان‘ میں شمولیت اختیار کی، جو افغانستان میں سویت یونین کے خلاف ایک تحریک بن چکی تھی۔ تاہم، حکمت یار کے ترقی پسند خیالات کے باعث تحریک کے دیگر نوجوانوں نے، جو احمد شاہ مسعود سے قربت رکھتے تھے، اُنھیں پیر جمانے نہیں دیے۔ احمد شاہ مسعود بھی اُس وقت کابل یونیوسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔
سنہ 1975 میں، حکمت یار پر الزام لگا کہ اُنھوں نے مبینہ طور پرپاکستان کی مدد سے، اپنے حریف کو دوسری بار قتل کرنے کی کوشش کی، جب احمد شاہ مسعود کی عمر 22 برس تھی۔ لیکن، وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔
سنہ 1975 میں، ’اسلامی سوسائٹی‘ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، جن میں سے ایک کی قیادت مسعود جب کے دوسرے کی سربراہی برہان الدین ربانی کر رہے تھے، جو جماعت اسلامی کے راہنما تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حکمت یار نے اپنی جماعت، ’حزب اسلامی‘ کی بنیاد رکھی۔
داؤد خان کی جانب سے ’پختونستان‘ کا نعرہ بلند کرنے اور پشاور میں افغان حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کی آمد کے بعد، حالات نے پلٹا کھایا۔
یہ وہ دور تھا جب بتایا جاتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی پالیسی کے نتیجے میں اور خیبر پختونخوا کے گورنر، جنرل نصیراللہ بابر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آشیرباد کے ساتھ حکمت یار اور داؤد کے مخالفین کو تربیت فراہم کی گئی۔ اسلامی تحریک کی دو خاص شاخیں تھیں؛ ایک تھی جماعت اسلامی، جس کی قیادت برہان الدین ربانی کررہے تھے، جو اسلامی تحریک کی روح رواں خیال کی جاتی تھی؛ جب کہ دوسری پارٹی حزب اسلامی تھی جو ابھی پیر جما رہی تھی، جس کی قیادت حکمت یار کرتے تھے۔ گلبدین حکمت یار کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ اکتوبر، 1975ء میں، حکمت یار نے حکومت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ عوامی حمایت نہ ہونے کے باعث، یہ بغاوت بے نتیجہ ثابت ہوئی، اور سینکڑوں عسکریت پسند قید کرلیے گئے۔
گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی ایک منظم جماعت تھی، جسے ابتدائی طور پر، لینن کی تعلیمات اور اسلامی رنگ میں چلانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ساتھ ہی، ایران کے انقلاب کے طرز پر اُس کی تربیت کی جارہی تھی؛ اور بتایا جاتا ہے کہ ناصر باغ، وارسک اور شمشاتو مہاجر کیمپوں میں یہ تربیتی کام جاری تھا۔
سنہ 1976 اور 1977ء میں افغان صدر داؤد نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ تاہم، پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکمت یار کو مدد جاری رہی۔ تاہم، سنہ 1977میں جنرل ضیاالحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ تاہم، نئی پاکستانی حکومت نے حکمت یار کی مدد جاری رکھی۔
جب سویت یونین نے افغانستان فتح کیا، تو گلبدین حکمت یار کو سعودی عرب، پاکستان اور امریکہ سے بے تحاشہ امداد میسر آئی۔ برطانوی ’ایم آئی 6 ‘کی مدد سے مارگریٹ تھیچر نے بھی بڑھ چڑھ کر اُن کی مدد کی۔
صدر ضیاالحق نے حکمت یار کو تحفظ اور مالی اعانت فراہم کی، اور اُنھیں مجاہدین کے باقی سارے دھڑوں سے زیادہ اہمیت دی۔
امریکی تجزیہ کار، پیٹر برگن کے بقول، پاکستان کے ذریعے حکمت یار کو 60 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کی گئی، جس سے اُنھوں نے حزب اسلامی کی تنظیم کو مضبوط کیا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین سویت یونین کی پروردہ افغان حکومت کے خلاف تربیت حاصل کررہے تھے۔ اب حکمت یار نے پلٹا کھایا اور دیگر مجاہدین کے ساتھ سختی برتی گئی اور وہ ہلاک ہونے لگے، جس پر ضیا الحق نے حکمت یار کو متنبہ کیا۔ اُنھیں بتادیا گیا کہ پاکستان نے ہی اُن کی آبیاری کی ہے، اور وہ کسی بھی وقت ہاتھ کھینچ لے گا،اور وہ کسی قابل نہیں رہیں گے۔
یہ وہ دور تھا جب حکمت یار کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف جھکتے دکھائی دیے۔ مثلاً سنہ 1976میں حکمت یار نے اپنے مخالف احمد شاہ مسعود کو جاسوسی کے الزام پر پاکستان میں گرفتار کروایا۔ دوسری جانب، مسعود کے ساتھ ہی مل کر، حکمت یار نے وادی پنج شیر کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا؛ لیکن دراصل ان کا مقصد مسعود کی جڑیں کاٹنا تھا۔
سنہ 1987میں، حکمت یار کے دھڑے نے برطانوی کیمرامین، اینڈی کو قتل کیا، جو مسعود کی فاتحانہ کارروائیوں کی گواہی کی عکس بندی کررہے تھے۔ 9 جولائی، 1989میں حکمت یار کے کمانڈروں نے مسعود کے 30 کمانڈروں کو قتل کر دیا۔
ادھر سنہ 1987میں، ’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے 96 گھوڑوں پر لدی ہوئی ادویات کی امدادی کھیپ پر قبضہ جما لیا۔
بتایا جاتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف لڑائی میں مدد کے عوض، سی آئی اے نے مبینہ طور پر حکمت یار کو کئی رعایتیں دیں، یہاں تک کہ منشیاب کے کاروبار میں مدد کی۔
سنہ 1992سے 96ء تک افغانستان میں خانہ جنگی کا دور دورہ رہا۔ یہ وہ دور تھا جب جمہوریہ افغانستان کے اہل کار خود مجاہدین کے حلقوں میں شامل ہونے لگے۔ ایسے میں، خلق پارٹی کے پشتون اہل کار حکمت یار کے ساتھ مل گئے۔ 24 اپریل، 1992میں حکمت یار نے کابل فتح کرنے کا اعلان کیا ، اور اگر کسی نے کابل سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اُسے گولی ماردی جائے گی۔ افغانستان کی عبوری اسلامی حکومت کے سربراہ صبغت اللہ مجددی نے احمد شاہ مسعود کو وزیر دفاع تعینات کیا، اور اقدام کرنے کے احکامات دیے۔ دو دِن لڑائی جاری رہی اور حزب اسلامی کو شکست ہوئی اور اُن کے حامیوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔ دو روز بعد آپسی الزامات کے بعد، برہان الدین ربانی اور مسعود شاہ کی جمعیت ؛ عبدالرشید دوستم کی ’جنبش‘ اور حکمت یار کی ’حزب اسلامی‘ کے دھڑے آپس میں دست و گریباں ہوئے۔
سنہ 1992 سے 1996ء تک خانہ جنگی کے دوران کابل میں غارت گری کا بازار گرم رہا اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر سولین آبادی تھی۔ سبھی جماعتوں پر الزام دیا گیا۔ تاہم، زیادہ تر تباہی کا ذمہ دار حکمت یار کے گروپ کو ٹھہرایا گیا۔ مغربی میڈیا نے حکمت یار کو کئی القاب سے نوازا، جن میں ’کابل کے قصائی‘ کا الزام بھی شامل ہے۔
طالبان کے دور میں سنہ 1996ء سے 2001ء تک، افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہی۔ اس دوران، حکمت یار کو پاکستانی فوج کی حمایت حاصل رہی۔ نومبر، سنہ 1994ء میں قندھار پر قبضہ جمانے کے بعد، طالبان نے حزب اسلامی کا حصار توڑتے ہوئے، کابل کی جانب پیش قدمی کی۔ دو فروری 1995ء میں اُنھوں نے وردک فتح کیا اور 10 فروری کو میدان شہر کی جانب بڑھے۔ دوسرے روز، طالبان محمد آغا پہنچے۔ بہت جلد، طالبان اور سرکاری افواج کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے، حکمت یار نے ہمت ہاری۔ 14 فروری کو، حکمت یار نے چہارسیاب کے اپنے ہیڈکوارٹر کو خالی کردیا، جہاں سے کابل پر راکیٹ فائر کیے گئے اور سروبی کی جانب پسپائی اختیار کرگئے۔
مئی 1996ء میں ربانی اور حکمت یار نے مل کر حکومت سنبھالی ،جس میں حکمت یار وزیر اعظم بنے۔ ربانی ،حکمت یار حکومت چند ماہ جاری رہی، جس کے بعد ستمبر 1996ء میں طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ادھر، پاکستان میں حزب اسلامی کے تربیتی مراکز کو طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا، جو جمعیت علمائے اسلام اور سپاہ صحابہ پاکستان کے حوالے ہوگئے۔
سنہ 1997میں حکمت یار ایران چلے گئے، جہاں چھ برس تک اُن کا قیام رہا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے امریکہ پر حملوں کے سلسلے میں، بتایا جاتا ہے کہ حکمت یار نے 1990ء کے اوائل کے دوران مبینہ طور پر، اسامہ بن لادن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اُنھوں نے افغانستان میں امریکہ کارروائی اور امریکہ کو مدد فراہم کرنے پر پاکستان پر تنقید کی تھی۔ حکمت یار نے 5 دسمبر 2001ء میں جرمنی کی سربراہی میں طے ہونے والے اقوام متحدہ کے معاہدے کی مخالفت کی؛ جس پر امریکہ اور کرزئی انتظامیہ کے دباؤ کے نتیجے میں، 10 فروری، 2002ء میں ایران میں حزب اسلامی کے دفاتر بند کردیے گئے اور حکمت یار کو ایران نے ملک بدر کردیا۔
امریکہ نے الزام لگایا کہ حکمت یار نے طالبان لڑاکوں کو ہدایت دی کہ وہ افغانستان میں اتحادی افواج کے ساتھ لڑنے پر کمر بستہ ہوجائیں۔ اُن پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنھوں نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے پر انعام دینے کا اعلان کیا۔ اُنھیں ایک جنگی مجرم قرار دیا گیا۔ پانچ ستمبر 2002ء میں حامد کرزئی کے قتل کی سازش، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، حکمت یار کا نام لیا گیا۔ حکمت یار نے ٹیپ شدہ بیان جاری کیا جس میں امریکہ کے خلاف جہاد کی کال دی گئی۔ 19 فروری، 2003ء میں امریکی محکمہ خارجہ اور امریکہ محکمہ انصاف نے حکمت یار کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیا۔
سنہ 2007ء میں حکمت یار نے دعویٰ کیا کہ اُنھوں نے اسامہ بن لادن کو تورا بورا سے باہر نکالنے میں مدد فراہم کی تھی۔
سنہ 2008ء کے بعد، افغان سیاست سے کنارہ کشی کے دنوں میں گلبدین حکمت یار نے پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ مرکوز رکھی۔ کرزئی اور بین الاقوامی افواج پر متعدد حملے کیے گئے، جن میں کئی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
پھر اُن کےکئی عدد انٹرویو سامنے آئے جن میں حکمت یار نے ’’غیر ملکی افواج کے بغیر شرط ملک سے فوری انخلا ‘‘ کی باتیں کی تھیں۔ سنہ 2008میں، حکمت یار پاکستانی سرحد کے ساتھ جنوب مشرقی افغانستان میں کہیں چھپے رہے۔ سنہ 2008میں اُنھوں نے طالبان اور القاعدہ کے ساتھ رابطوں کے الزام کو مسترد کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں سے، وہ افغانستان کے شمال مشرقی قبائلی علاقے کی جانب چلے گئے تھے۔
سنہ 2010میں حکمت یار کو افغان بغاوت کے تین اہم سرغنوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ تاہم، اُنھوں نے حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی مفاہمت کی بات کی؛ جب کہ اُس وقت ملا عمر اور سراج الدین حقانی کابل یا غیر ملکی افواج کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کے امکان کو مسترد کرتے رہے۔
بائیس ستمبر، 2016ء کو حزب اسلامی اور حکومت کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا، جس کے بعد حکمت یار کو عام معافی دی گئی۔ اس معاہدے کے نتیجےمیں، حزب اسلامی کے قیدیوں کو رہائی ملی اور حکمت یار کو منظر عام پر آنے کی اجازت دی گئی۔
انتیس ستمبر، 2016ء کو اس معاہدے پر افغان صدر اشرف غنی اور حکمت یار نے باضابطہ دستخط کیے، جس دوران، وہ وڈیو لنک کے ذریعے سامنے آئے۔ تین فروری، 2017ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے اُن کے خلاف عائد کردہ تمام تعزیرات واپس لے لی گئیں۔
چار مئی، 2017ء کو ، گلبدین حکمت یار کی 20 برس بعد، اپنے حامیوں کے ایک بڑے قافلے کی صورت میں کابل واپسی ہوئی۔
صدارتی محل میں اپنے خطاب میں، حکمت یار نے افغان طالبان سے امن کی راہ اختیار کرنے کی اپیل کی، اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی یکجہتی، امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کیا جائے۔