|
ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق حتمی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے'رائٹرز' کے مطابق ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ حتمی رپورٹ میں ہیلی کاپٹر کی تباہی کو حادثہ قرار دیا گیا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر خراب موسم اور شدید دھند کے سبب گر کر تباہ ہوا۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو ملک کے سپریم لیڈر آیات اللہ خامنہ ای کا جانیشن تصور کیا جاتا تھا۔ ان کا ہیلی کاپٹر مئی میں آذربائیجان کے قریب پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے حتمی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آنے کی اہم وجہ اس علاقے کا پیچیدہ موسم تھا۔
رپورٹ کے مطابق 19 مئی کو شدید دھند کی وجہ سے ہیلی کاپٹر پہاڑ سے ٹکرا گیا تھا جس سے اس میں سوار افراد کی موت ہوئی۔
ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا حادثہ مئی کے وسط میں اس وقت ہوا تھا جب وہ سرحدی علاقے میں آذربائیجان اور ایران کے ڈیم کے مشترکہ منصوبے کا افتتاح کر کے تبریز جا رہے تھے۔
موسم کی خرابی کے باوجود ہیلی کاپٹر 145 کلومیٹر دور اس سفر پر روانہ ہوا جہاں تبریز کے قریب تیل کی ایک نئی پائپ لائن کے افتتاح کی تقریب تھی اور پھر ایک گھنٹے کے اندر ہی ہیلی کاپٹر بادلوں سے ڈھکے پہاڑ سے ٹکرا گیا تھا۔
ابراہیم رئیسی کے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں اس وقت کے وزیرِ خارجہ امیر عبد اللہیان، ایرانی صوبے مشرقی آذر بائیجان کے گورنر، صدر کے سیکیورٹی گارڈز اور دیگر حکام بھی سوار تھے۔
صدر کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ ایران کے صوبے مشرقی آذربائیجان میں پیش آیا تھا جس کے ایک دن کے بعد ریسکیو آپریشن کے دوران امدادی کارکن ہیلی کاپٹر تک پہنچ سکے تھے۔
سیریم نامی ایک کمپنی کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر بیل 212 تقریباً 30 سال پرانا تھا اور اسے کینیڈا کی ایک کمپنی سے ایرانی ایئرفورس کے لیے خریدا گیا تھا۔ ایسے 12 ہیلی کاپٹر اب بھی ایرانی فورسز کے زیر استعمال ہیں۔
ایران میں بیل۔212 ہیلی کاپٹروں کے بیڑے کو سب سے زیادہ نقصان ایران پر عائد معاشی پابندیوں سے پہنچا جس سے ان کے فاضل پرزوں کی فراہمی بند ہو گئی۔ مقامی طور پر پرزے تیار کرنے اور چوری چھپے منگوانے کی کوششوں کے باوجود زیادہ تر ہیلی کاپٹر پرواز کے قابل نہیں رہے۔
یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ خراب موسم کے باوجود ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو پرواز کی اجازت کس نے دی؟ یا اسے ہیلی کاپٹر میں سوار اعلیٰ سرکاری شخصیات کے دباؤ پر اڑانے کا خطرہ مول لیا گیا۔
اتوار کو سامنے آنے والی حتمی تحقیقاتی رپورٹ فوج کی قائم کردہ ایک اعلیٰ کمیٹی نے جاری کی ہے جو اس معاملے کی تحقیقات میں مصروف تھی۔
ایران کی فوج نے مئی میں بھی ایک ابتدائی رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں ہیلی کاپٹر پر کسی بھی قسم کے حملے کی شواہد نہیں ملے۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)