|
اسلام آباد__پاکستان کی جانب گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور ایران اس سلسلے میں پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مقامی زرائع ابلاغ کے مطابق ایران نے پاکستان کو معاہدے پر عمل نہ کرنے کے سے متعلق آخری نوٹس بھی بھیج دیا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ایران منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے پر پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے گیس پائپ لائن کے بارے میں ایران کے نوٹس سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاملہ وزارتِ پٹرولیم سے متعلق ہے البتہ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد تہران کے ساتھ تمام امور دوستانہ بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں گیس پائپ لائن کا معاملہ زیر بحث آنے کے باوجود وزارتِ پٹرولیم نے اس بارے میں کوئی ردِعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا معاہدہ 2010 میں ہوا تھا۔ تقریباً 1900 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا مقصد پاکستان کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 25 سال تک 75 کروڑ سے ایک ارب کیوبک فٹ یومیہ قدرتی گیس فراہم کرنا تھا۔
اس معاہدے کے مطابق ایران کے جنوبی فارس گیس فیلڈ سے پاکستان کے بلوچستان اور سندھ کے صوبوں تک پائپ لائن کی تعمیر ہونا تھی لیکن امریکی پابندیوں کے خدشات کی وجہ سے پاکستان کے حصے میں اس منصوبے پر کام رکا ہوا ہے۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں پائپ لائن کی تعمیر کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ تاہم پاکستان نے ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے پیش نظر اپنے علاقے میں تعمیر شروع نہیں کی۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی مسائل اور خطے میں سفارتی مشکلات کا شکار ہے ایران کا 18 ارب ڈالر کے ہرجانے کے لیے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ اسلام آباد کی دشواریوں میں میں اضافہ کرسکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سنجیدہ جواب اور عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ایران ثالثی عدالت میں جانے کا جواز رکھتا ہے۔
ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے اسلام آباد میں نمائندے افضل رضا کہتے ہیں کہ ایران نے ثالثی عدالت جانے کا سنجیدہ فیصلہ کیا ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی وزارت پٹرولیم اس صورتِ حال میں کیا اقدامات کرتی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران کی جانب سے لکھے گئے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ملک خاموشی سے معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ایران کے لیے معاشی اعتبار سے اب یہ گیس پائپ لائن زیادہ فائدہ مند نہیں رہی تاہم تہران قانونی و سیاسی بنیادوں پر اسے مکمل کرنا چاہتا ہے۔
افضل رضا نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر ایران ستمبر 2024 تک معاملہ ثالثی عدالت میں نہیں بھیجتا تو وہ پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا حق کھو دے گا۔
ایرانی حکام نے تاحال گیس پائپ لائن سے متعلق ایران کی طرف سے پاکستان کو آخری نوٹس دینے کی خبروں کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم ایرانی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔
تہران میں مقیم صحافی آر اے سید کہتے ہیں کہ ایران گیس پائپ لائن میں تاخیر کا معاملہ ضرور فرانس کی ثالثی عدالت میں لے کر جائے گا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تہران پوری قوت سے 18 ارب ڈالر کے جرمانے کے حصول کا فیصلہ چاہے گا چاہے بعد ازاں وہ پاکستان سے اس معاملے پر سمجھوتا کر لے اور جرمانے کی رقم وصول نہ کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس تگ و دو کے بعد بھی گیس پائپ لائن کسی نتیجے پر پہنچتی دکھائی نہیں دیتی اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ جرمانے سے بھی بچ جائے اور گیس پائپ لائن کو بھی آگے نہ بڑھایا جائے۔
خیال رہے کہ رواں سال فروری میں پاکستان کی سبک دوش ہونے والی نگراں حکومت نے منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اربوں ڈالر کے جرمانے سے بچنے کے لیے ایرانی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے میں پائپ لائن کا ایک چھوٹا سا حصہ تعمیر کرنے کی منظوری دی تھی۔
تاہم مارچ میں اقتدار سنبھالنے والی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ابھی تک اس منصوبے پر کام شروع نہیں کیا ہے۔
اپریل کے آخر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک طویل مشترکہ بیان میں اس پائپ لائن کا سرسری سا ذکر آیا تھا، جس کی وجہ سے ایسی قیاس آرائیاں سامنے آئی تھیں کہ یہ منصوبہ سرمہری کا شکار رہے گا۔
باعثِ تاخیر کیا ہے؟
افضل رضا کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام غیر رسمی طور پر ایران کو بتاتے رہے ہیں کہ امریکی دباؤ کے باعث گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو عملی اقدامات ہی سے تسلی بخش جواب دیا جاسکتا ہے کیونکہ کابینہ کے فیصلے کے باوجود پاکستان کی حدود میں گیس پائپ لائن بچھانے پر پیش رفت دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ان کے بقول، پاکستان میں کابینہ کے فیصلے کے بعد امریکی دباو آگیا بلکہ ڈونلڈ لو نے براہ راست بیان دیا کہ امریکہ اس پائپ لائن کی حمایت نہیں کرے گا۔
پاکستان کے وزیرِ پیٹرولیم سینٹر مصدق ملک کہہ چکے ہیں کہ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس منصوبے کے لیے امریکی پابندیوں سے استثنیٰ مانگیں گے۔
اپریل میں امریکی کانگریس میں بریفنگ کے دوران امریکی معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے واضح کیا تھا کہ امریکہ اس پائپ لائن کی حمایت نہیں کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد نے اس ضمن میں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی کوئی درخواست نہیں دی ہے۔
تہران میں مقیم صحافی آر اے سید کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن کے معاہدے سے قبل بہت طویل اور متحرک سفارت کاری ہوئی تاہم بیرونی دباؤ نے دونوں ملکوں کے لیے انتہائی مفید منصوبے کو تاحال التواء کا شکار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے اندر شکوہ ہے کہ اسلام آباد تہران کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتا ہے ان منصوبوں اور پیش کشوں کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے جو دو طرفہ مفاد میں ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح پاکستان کو بھی بلوچستان میں امن و مان کے حوالے سے شکایات پائی جاتی ہیں۔
آر اے سید کے بقول ایران کے اندر بھی ایک بھارت نواز لابی پاکستان سے تعلقات اور گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل نہیں چاہتی ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں سرحدی مسائل اور امن و امان کے معاملات بھی حل کی طرف آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب بھارت چابہار بندرگاہ پر سرمایہ کاری کررہا ہے جو کہ افغانستان کے اعتبار سے بھی اہم ہے اور گوادر کی اہمیت کو بھی کم کرسکتی ہے۔
ان کے نزدیک خطے کے ان حالات میں پاکستان کو گیس پائپ لائن جیسے اچھے مواقع گنوانے نہیں چاہئیں۔
فورم