کراچی کی تمام عوام سیفٹی کے لیے ہیلمٹ کو بہترین’ آپشن‘ قرار دیتی ہے۔ یہاں تک کہ خود خواتین بھی ہیلمٹ کے فوائد سے انکاری نہیں، وہ کہتی ہیں کہ تمام موٹر سائیکل چلانے اور ان کے پیچھے بیٹھ کر سفر کرنے والے لوگوں کو ہیلمٹ پہننا چاہیئے لیکن وہ خود ہیلمٹ پہننے پر رضامند نہیں۔
نہ ہی مرد حضرات اس بات پرآمادہ ہیں کہ خواتین پر بھی ہیلمٹ پہننے کی پابندی ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے متعدد مرد اور خواتین سے اس موضوع پر ان کا نکتہ نظر جاننے کی کوشش کی کہ آئندہ ماہ سے موٹر سائیکل پر سوار ہونے والے ہر فرد پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر کیا کہتے ہیں، جس پر بیشتر شہریوں نے خواتین کو ہیلمٹ پہننے اور پہنانے پر مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔
ایک خاتون مونا کا کہنا تھا کہ ”یہ تو بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں زرق برق کپڑے اور اس پر ہیلمٹ پہننے والی خاتون کیسی لگے گی۔۔؟؟ مجھے تو سوچ کر ہی ہنسی آ رہی ہے۔“
کریم آباد کی رہائشی اور میمن فاؤنڈیشن کی ایک اسٹوڈنٹ کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ ”ہیلمٹ پہننے سے میک اب کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ “
ایک اور اسٹوڈنٹ شمع کا کہنا تھا کہ عبایا پہننے والی خواتین کا تو سوچئے ۔۔ وہ ہیلمٹ میں کتنی” اوکورڈ “ لگیں گی۔
ادھر حسن اسکوائر گلشن اقبال میں رہنے والے عارف کہتے ہیں ”اب تو گھر میں جتنے فرد ہوں گے اتنے ہی ہیلمٹ رکھنے پڑھیں گے۔۔ جانے کس کو کب اور کہاں جانا پڑجائے۔ “
ڈی آئی جی ٹریفک امیر احمد شیخ کے دفتر کے ایک اہلکار محمد ادریس کے مطابق ”ہیلمٹ صرف مرد اور عورت کے لیے ہی پہننا لازمی نہیں ہو گا بلکہ بچوں پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی ہو گی ورنہ خلاف ورزی کی صورت میں انہیں بھی موٹر وہیکل آر ڈییینس 1965ء کی دفعہ 89۔ اے کے تحت ڈیڑھ سو روپے جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ “
محمد ادریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ” گوکہ ہماری ثقافت اور معاشرتی اقدار اس قسم کی ہیں کہ ٹریفک پولیس کا خواتین پر قانون کی پاسداری کے لیے بھی دباوٴ ڈالنا مشکل ہے لیکن قانون تو سب کے لئے برابر ہوتا ہے ، سبھی پر اس کی عملداری ضروری ہوتی ہے۔“
گلشن اقبال میں تعینات ایک ٹریفک پولیس افسر اعجاز بلوچ نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ”دنیا بھر کی خواتین پر موٹر سائیکل چلانے کی صورت میں ہیلمٹ پہننے کی پابندی ہوتی ہے، بھارت میں بھی یہ قانون نافذ ہے لیکن پاکستانی خواتین جانے کیوں اسے مشکل تصور کر رہی ہیں۔ ہیلمٹ سر کی انجری سے بچاتا ہے۔۔۔‘‘
تاہم گلستان جوہر کے ایک رہائشی محسن شاہ کہتے ہیں کہ ”ملک میں دہشت گردی عروج پر ہے ایسے میں موٹرسائیکل پر سفر کرنے والے دونوں افراد پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی لگی تو یہ دہشت گردوں کے لیے مزید فائدے کا سبب ہو سکتی ہے۔“
محسن شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ” آپ کو یاد ہو گا پچھلے سالوں میں شیرشاہ کباڑی بازار میں جو دہشت گردی ہوئی تھی اس میں ملوث تمام موٹر سائیکل ملزمان نے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اس لیے ان کی آج تک شناخت ممکن نہیں ہوسکی جبکہ اسماعیلی برادری کی بس پر فائرنگ کے ملزمان اور عزیزآباد میں پولیس موبائل پر فائرنگ کرنے والے آسانی سے پکڑ لیے گئے کیوں کہ انہوں نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا اور وہ سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے آسانی سے قانون کی گرفت میں آگئے۔ “
اگرچہ موٹر سائیکل اور ہیلمٹ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کا ایک حربہ ہے لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت ’’ٹرانسپیرنٹ‘‘ ہیلمٹ متعارف کرائے تاکہ موٹر سائیکل سوار کا چہرہ بھی دکھائی دیتا رہے اور کسی حادثے کی صورت میں وہ جانی نقصان سے بھی بچا رہے۔