رسائی کے لنکس

پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ: کم آمدنی والے طبقات کتنے متاثر ہوں گے؟


نوشابہ بی بی پاکستان کی صف اول کی ٹیکسٹائل ملز میں کٹنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں اور اوورٹائم ملا کر ان کی ماہانہ تنخواہ 24 ہزار روپے کے قریب بنتی ہے۔ان کے شوہر بھی آٹو موبائل انڈسٹری میں ایک ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں جن کی آمدن 25 ہزار روپے ہے۔

ان دونوں کی تنخواہ سے بمشکل گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات پورے ہو پاتے ہیں پیٹرول کی قیمتوں میں حکومت کی جانب سے یکمشت 30 روپے کے اضافے نے مہنگائی کے اس دور میں انہیں مزید پریشان کر دیا ہے۔ وہ اور ان جیسے لاکھوں گھرانے اس کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

نوشابہ کا کہنا ہے کہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ان کے اخراجات، کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کے اخراجات اور اس طرح کے دیگر اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے جمعرات کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 20 فی صد اضافہ کردیا ہے یہ اضافہ فوری طور پر نافذ العمل ہونے کے بعد ملک میں پیٹرول کی نئی قیمت 179.86 روپے تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ ڈیزل کی نئی قیمت بھی 174 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان قیمتوں کو بڑھانے کے بعد بھی پیٹرول پر 55 روپے فی لیٹر پیٹرول سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جب کہ پرانی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے سے خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مشکل فیصلے سے عوامی سطح پر ہونے والی تنقید کا سامنا کرنے کے لیے ان کی حکومت تیار ہے لیکن یہ فیصلہ ان کے بقول ملکی مفادات کے لیے انتہائی ضروری تھا۔


حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکمشت اتنے بڑے اضافے پر عوامی سطح پر جہاں سخت تنقید کی جا رہی ہے وہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درست سمت میں تاخیر سے کیا جانے والا قدم ہے۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر اور سینئر معیشت دان ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر درست سمت میں قدم اٹھایا ہے اور یہ قدم اٹھانا ناگزیر تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا تھا کہ اگر قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا تو حکومت کو صرف مئی میں 118 ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑتی جب کہ وفاقی حکومت کے ماہانہ اخراجات تقریباً 40 ارب روپے کے لگ بھگ ہیں یعنی پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی وفاقی حکومت کے ماہانہ اخراجات سے بھی زائد ہے۔

ڈاکٹر نجیب کا مزید کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی جنرل سبسڈی کے زمرے میں آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے تمام لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں چاہے غریب ہو یا امیر۔

اس سوال کے جواب میں کہ اس فیصلے سے غریب ترین طبقات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ان اثرات سے اس طبقے کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر نجیب کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں سبسڈی اب مخصوص طبقات کو دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی بار پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر سب طبقات کو فائدہ پہنچانے کے بجائے مخصوص طبقہ کی مدد کے لیے دوسرے طریقوں کو اپنانا ہوگا جس کے لیے حکومت کے پاس نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کی شکل میں بہترین ڈیٹا موجود ہے۔ ایسے افراد کو احساس/بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت نقد رقوم یا انہیں سستے ریٹس پر اشیائے خورو نوش فراہم کی جائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل سبسڈی دینے سے اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور وہ طبقات جو اس کے مستحق نہیں ہوتے وہ بھی فائدے اٹھاتے ہیں۔ غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایک اور ماہر معاشیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ آج کی سبسڈی مستقبل کی مہنگائی کی صورت میں سامنے آتی ہے اور یہی کچھ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رکھنے کی صورت میں سامنے آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات قرضے لے کر عوام کو سستے ریٹس پر فراہم کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب قرضوں کی ادائیگی کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی حکومت بتدریج کم کرے گی جس سے ملکی خزانے کے بڑھتے ہوئےخسارے کو کسی حد کنٹرول کیا جاسکے گا جو نو ماہ میں 2565 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کا پروگرام دوبارہ بحال کرنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی اور یوں پاکستان کو مزید 90 کروڑ ڈالر ملنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

ادھر حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کے بعد پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعے کو تیزی دیکھی گئی اور مارکیٹ انڈیکس میں 319 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بھی کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی اور پاکستانی روپیہ انٹر بینک میں ڈالر کے مقابلے میں 2 روپے 25 پیسے اضافے کے ساتھ 199 روپے 76 پیسے پر بند ہوا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG