پاکستان میں ہندو برادری کی شادی اور خانگی امور سے متعلق ہندو میرج ایکٹ 2017ء صدر پاکستان ممنون حسین کے دستخط کے بعد اب قانون بن گیا ہے جو فوری طور نافذ العمل ہو گا۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اس موقع پر سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس قانون کے باعث ہندو برادری کے خاندان اور بچوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے گا۔
انہوں نے کہا ملک کے ان علاقوں میں جہاں ہندو برادری کی اکثریت ہے وہاں ان کی شادیوں کے اندراج کے لئے رجسٹرار مقرر کیے جائیں گے۔
پاکستان میں ہندو برادری کے سرگرم کارکنوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی شادی کے اندراج کے لئے ایک قانون وضع کیا جائے کیونکہ شادی سے جڑے معاملات سے متعلق انہیں کئی طرح کے سماجی اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
انسانی حقوق اور ہندو برادری کے سرگرم کارکن جگ موہن اروڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس قانون کو ہندو برادری کے لیے نہایت خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس قانون کے فقدان کی وجہ سے ہندو شادی شدہ خواتین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
خاص طور پر پاکستان کے صوبہ سندھ میں خواتین کی جبری شادیوں کے واقعات پر انسانی حقوق کے ادارے اور ہندو برادری کے افراد تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہندوؤں کی شادی کا قانونی دستاویزی ثبوت نا ہونا بھی ان واقعات کی ایک وجہ تھی۔
جگ موہن اروڑہ کہتے ہیں کہ اس قانون کے بن جانے سے ایسے واقعات کا کسی حد تک تدارک ممکن ہو سکے گا۔
"پاکستان میں رہنے والے جو ہندو ہیں ان کے لئے یہ مسئلہ بنا ہوا تھا کیونکہ بعض اوقات یہ معاملہ درپیش ہوتا تھا کہ یہ خاتون جو کہہ رہی یا یہ مرد جو کہہ رہا ہے کہ یہ عورت اغوا کر کے لائی گئی ہے تو اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہوتا تھا اور اب اس قانون کے بن جانے کے بعد اب ایک دستاویزی ثبوت ہو گا جس کی وجہ سے ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔"
انھوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا وہ ملک کے ایسے تمام علاقے جہاں ہندو برادری کے بہت کم افراد مقیم ہیں وہاں بھی ان کی شادی کی رجسٹریشن کے لئے رجسٹرار مقرر کرے۔
پاکستان مسلم اکثریتی آبادی کا ملک ہے لیکن یہاں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے جن میں ہندو بھی شامل ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد ملک کے جنوبی صوبہ سندھ میں آباد ہے۔ سندھ حکومت پہلے سے ہندو برادری کے افراد کی شادی کے اندراج کے لیے قانون منظور کر چکی ہے۔
اگرچہ اس قانون کو پاکستان کی وفاقی حکومت نے منظور کیا ہے تاہم پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی اس قانون کو اپنے ہاں رائج کر سکتی ہیں۔