بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے ضلع ہری دوار میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کے بعد ریاست چھتیس گڑھ میں ہونے والے ایک اور اجتماع میں بھارت کو 'ہندو اسٹیٹ' بنانے کے لیے مبینہ طور پر ہتھیار اُٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔
مذکورہ اجتماع میں مہاتما گاندھی کو مبینہ طور پر غدار کہنے کے الزام میں ایک مذہبی رہنما سنت کالی چرن کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ واقعے پر سخت ایکشن نہ لینے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ہری دوار میں قوم پرست ہندوؤں کے اجتماع میں شریک ایک ہندو رہنما نے مبینہ طور پر مسلمانوں کا 'قتلِ عام' کرنے کی بات کی تھی۔ بھارت میں مسلمان رہنماؤں نے اس بیان کی مذمت کی تھی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق چھتیس گڑھ کے شہر رائے پور میں اتوار کو ہونے والے ایک اور اجتماع میں ملک کے دیگر حصوں سے 20 مذہبی شخصیات نے شرکت کی جہاں مبینہ طور پر مہاتما گاندھی کے بارے میں بھی توہین آمیز گفتگو کی گئی۔
ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما سنت کالی چرن نے اقلیتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مختلف ملکوں میں سیاست اور حکومت پر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رائے پور میں منعقد ہونے والا اجتماع اتوار کو اس وقت اچانک ختم کر دیا گیا جب اس کے ایک اہم سرپرست مہنت رام سندر داس مہاراج نے یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے واک آوٹ کر دیا کہ وہ اس اشتعال انگیزی سے خود کو الگ کرتے ہیں۔
مہنت رام سندر داس کانگریس کے سابق رکنِ اسمبلی اور ’چھتیس گڑھ گائے سیوا کمیشن‘ کے چیئرمین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے مہاتما گاندھی کے بارے میں ایسی زبان کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
رپورٹس کے مطابق مذہبی اجتماع کے منتظم نیل کنٹھ ترپاٹھی نے بھی اس اجتماع میں دیے گئے متنازع بیانات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
متعدد سیاست دانوں نے، جن میں ریاستی کانگریس رہنما سشیل آنند شکلا، عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ اور مہاراشٹر کے وزیر نواب ملک شامل ہیں، اجتماع میں کی جانے والی مبینہ قابل اعتراض باتوں کی مذمت کی ہے۔
ہری دوار کیس میں مزید دو افراد نامزد
ریاست اتراکھنڈ کے ہری دوار میں 17 سے 19 دسمبر تک منعقد ہونے والے مذہبی اجتماع میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے معاملے میں تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ البتہ ہری دوار کی پولیس نے دو مزید مقررین کے نام ایف آئی آر میں شامل کر لیے ہیں۔
اتراکھنڈ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اشوک کمار نے اخبار ’دی ہندو‘ کو بتایا ہے کہ اس معاملے میں متعدد افراد کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، تاہم کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر میں جن لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں وہ انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے اور ہندو مہا سبھا کے جنرل سیکرٹری دھرم داس مہاراج ہیں۔
خیال رہے کہ ہری دوار کی پولیس نے 23 دسمبر کو ایف آئی آر درج کی تھی اور ایک شخص وسیم رضوی عرف جتیندر نرائن تیاگی کا نام رپورٹ میں شامل کیا تھا۔
اس سوال پر کہ کیا گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف سخت قانون یو اے پی اے لگایا جائے گا؟ اشوک کمار کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور 'یو اے پی اے' کے استعمال کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
’یہ مذہب مخالف اجتماعات ہیں‘
معروف اسکالر اور تجزیہ کار ڈاکٹر انل دت مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جو لوگ اشتعال انگیزی کر رہے ہیں ان کے خلاف حکومت کو قانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ ان کے بقول ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے۔
ان کے مطابق حکومت کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ معاشرے میں امن و قانون برقرار رکھنے اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے۔ اگر کوئی ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذاہب یا ان کے ماننے والوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرے۔ بھارت کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
تجزیہ کار انل دت مشرا نے کہا کہ جہاں تک گاندھی اور نہرو کی بات ہے تو واٹس ایپ پر ان دونوں رہنماؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر غلط معلومات پھیلائی جاتی ہے۔ ان گمراہ کن باتوں سے متاثر ہونے والے لوگ نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں اور بھارت جیسے سیکولر ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی بات کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکومت ملک میں انتہا پسندی اور ہندوتوا نظریات کو فروغ دینے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو یہاں حقوق حاصل ہیں۔
چیف جسٹس کے نام 76 وکلا کا خط
دریں اثنا بھارت میں سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے چیف جسٹس این وی رمنا کے نام ایک خط لکھ کر نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔
دستخط کنندگان میں پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش، سینئر وکلا پرشانت بھوشن، دشینت دوے، سلمان خورشید، ورندا گروور اور میناکشی اروڑا شامل ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے فوری عدالتی مداخلت ضروری ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق ان تقریروں میں ایک مخصوص فرقے کی نسل کشی کی کھلی اپیل کی گئی ہے۔ یہ نہ صرف بھارت کے اتحاد و یکجہتی کے لیے سنگین خطرہ ہے بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا معاملہ بھی ہے۔
کرسمس کی تقریبات میں ہنگامے
دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں کرسمس کے موقع پر دائیں بازو کے کارکنوں نے مبینہ طور پر مسیحیوں کی متعدد تقریبات میں رخنہ اندازی کی اور جے شری رام کے نعرے لگا کر ہنگامہ کیا۔
رپورٹس کے مطابق بجرنگ دل کے کارکنوں نے آگرہ میں سانتا کلاز کا پتلا نذر آتش کیا اور مردہ باد کے نعرے لگائے۔
ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وِج نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امبالہ کے گرجا گھر میں دو افراد داخل ہوئے تھے۔ وہاں کا سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کیا گیا ہے اور ان دونوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔