بھارت کی ریاست ہریانہ کے وزیرِ اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے رواں ماہ 10 دسمبر کو دیے گئے اس بیان کے بعد کہ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی ناقابل برداشت ہے، جمعے کو ہریانہ کی سائبر سٹی گڑ گاؤں میں جمعے کی نماز کے سلسلے میں غیر یقینی حالات رہے اور کہیں نماز ہوئی اور کہیں نماز کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دوران گڑ گاؤں کے ادیوگ وہار فیز فائیو کے پارک میں جب مسلمان نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچے تو وہاں دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے درجنوں کارکن پہنچ گئے اور انھوں نے نماز کی مخالفت کی۔
رپورٹس کے مطابق انھوں نے وہاں پہنچنے والے نمازیوں سے کہا کہ وہ اگر ‘بھارت ماتا کی جے’ کے نعرے لگائیں گے تو انھیں نماز کی ادائیگی کی اجازت دی جائے گی۔ کافی دیر تک ہنگامے کے بعد بالآخر وہاں موجود مسلمانوں نے ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئی ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق جب مسلمانوں نے ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے سے انکار کیا تھا تو ان سے کہا گیا تھا کہ جو یہ نعرہ نہیں لگائیں گے کیا وہ پاکستان میں ہیں؟ بالآخر انھوں نے نعرے لگائے۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہاں پولیس کے اہل کار بھی موجود تھے البتہ انھوں نے نعرہ لگانے پر مجبور کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس بارے میں حکومت یا پولیس کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
بعض رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے قبل اس پارک میں نماز کی مخالفت نہیں کی گئی تھی۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ اس پارک میں بھی ہنگامہ کیا گیا۔
ادھر سیکٹر 37 میں بھی، جہاں کئی ہفتے سے دائیں بازو کی تنظیموں کے کارکن نماز کی مخالفت کر رہے ہیں، نماز ادا نہیں کی گئی۔
ہندو تنظیموں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں وہاں پہنچ کر بھجن کیرتن اور پوجا کی اور پھر لنگر تقسیم کیا گیا۔ اس پارک میں کوئی بھی مسلمان نماز کی ادائیگی کے لیے نہیں پہنچا۔
جمعیت علما ہریانہ، پنجاب، ہماچل اور چندی گڑھ (جسے متحدہ صوبہ پنجاب کہا جاتا ہے) کے پریس سکریٹری مولانا مبارک علی میو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے اب جو 36 مقامات بچے ہیں ان میں سے صرف چھ مقامات پر ہی نماز ادا کی گئی۔
تنازع سے آر ایس ایس کا کیا تعلق ہے؟
مولانا مبارک علی میو کے مطابق یہ چھ مقامات وہ ہیں جہاں کے مسلمانوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مسلمانوں سے متعلق تنظیم ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا۔ مسلم راشٹریہ منچ کے ذمہ داروں نے مسلمانوں سے کہا کہ انھیں تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
مولانا مبارک کے مطابق ان چھ مقامات میں سے بھی کم از کم دو مقامات پر دائیں بازو کے لوگوں نے ہنگامہ کیا اور نماز میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ زیادہ تر جگہوں پر نماز نہیں ہوئی البتہ خاموشی کے ساتھ کئی جگہ نماز ادا کی گئی۔ حکومت کے مقرر کردہ مقامات پر نماز نہیں ہوئی۔
مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینر اور گڑ گاؤں کے باشندے خورشید راجا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نماز کے لیے چھ مقامات کا تعین کیا گیا تھا لیکن بعض لوگوں نے ایک اور جگہ نماز ادا کرنے کی کوشش کی اور پھر وہاں کچھ لوگوں نے مخالفت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ لوگ مقررہ مقامات پر نماز ادا کریں، کوئی نئی جگہ نہ بنائیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے مسلم راشٹریہ منچ کے ذمہ دار کے حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بیدار شہری کی حیثیت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ علما اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر چھ مقامات کا تعین کیا گیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں یہ فرقہ وارانہ معاملہ نہ بن جائے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ اسی لیے ہم لوگوں کی کوشش رہی ہے کہ یہ تنازع آگے نہ بڑھے۔
’ایک جگہ چار جماعتیں ہوئیں‘
مسلم کونسل‘ کے رکن مولانا صابر قاسمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیکٹر37 میں تو نماز نہیں ہوئی لیکن سیکٹر 27 میں نماز جمعہ کی چار جماعتیں ہوئیں۔ یعنی یکے بعد دیگرے چار بار نماز ادا کی گئی اور جن مقامات پر لوگ نماز ادا نہیں کر سکے وہاں کے لوگ بھی یہاں آگئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ نماز کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ ہندو برادری کے نمائندے بھی نہیں ہیں۔ وہ چونکہ ایک ہی جگہ تک پہنچ پاتے ہیں اس لیے وہ صرف سیکٹر 37 ہی میں مخالفت کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق حکومت چاہے تو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے لیکن نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے دو فرقوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
نماز کے لیے جگہ دینے والے غیر مسلم نے گڑگاوں چھوڑ دیا
مولانا صابر نے بتایا کہ قبل ازیں جس غیر مسلم اکشے یادو نے اپنے مکان اور دکان کو نماز کے لیے کھول دیا تھا ان کے خلاف بھی دائیں بازو کے کارکنوں نے ہنگامہ کیا اور ان پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انھوں نے گڑ گاؤں چھوڑ دیا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جن پانچ گرودواروں میں نماز کی اجازت دی گئی تھی وہاں بھی مخالفت کی وجہ سے نماز نہیں ہو سکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسلمان ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کو مسترد کرتے ہیں اور آر ایس ایس کی کسی بھی تنظیم سے مسلمانوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل
دریں اثنا ایک سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے گڑ گاؤں میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روکنے والے ہندوتوا گروپوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر ریاست کے چیف سیکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے 2018 کا حوالے دیتے ہویئے درخواست میں کہا ہے کہ ڈی ایس پی پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریروں کو روکیں اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کریں۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نماز کی مخالفت کرنے والے چند افراد ہی ہیں۔ ان لوگوں نے ان کے خلاف بارہا انتظامیہ سے شکایت کی گئی ہے۔ ان کی ویڈیوز پیش کیں اور ان کے بیانات بھی پیش کیے اور مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن پولیس نے کبھی بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفرت انگیز تقریروں یا کسی بھی طرح فضا خراب کرتا ہے تو ریاست کے چیف سیکریٹری اور پولیس سربراہ ذمہ دار ہیں۔ ان کے عدم اقدامات توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس سلسلے میں تمام ثبوتوں کے ساتھ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ اس بارے میں کارروائی کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں گڑ گاؤں میں نماز کے خلاف احتجاج کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں اور ہنگامہ آرائی کی گئی ہے۔
ان کے مطابق ایسے لوگوں کو مقامی افراد کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وہ لوگ مذہب کے نام پر ایک مخصوص مذہب کے پیروکاروں کے خلاف ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’سوشل میڈیا پر گمراہ کن الزامات‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر گمراہ کن باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور یہ کہتے ہوئے کہ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی غیر قانونی ہے۔ یہ بے بنیاد الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان نماز کے بہانے سرکاری جگہوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق گڑ گاؤں کے کچھ مخصوص باشندوں نے رواں سال کے نو اپریل کو سوشانت لوک پولیس اسٹیشن میں ’بھارت ماتا واہنی‘ نامی ایک تنظیم کے ایک رکن دنیش بھارتی کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نماز کی مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش ہیں۔
رپورٹس کے مطابق رواں سال کے 29 اور 30 ستمبر کو گڑ گاؤں کے پولیس کمشنر اور 17 اور 24 ستمبر کو ڈویژنل کمشنر سے شکایت کی گئی تھی کہ کچھ لوگ مقررہ مقامات پر نماز ادا کرنے میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔
مذکورہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ان شکایتوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے نماز کی مخالفت کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مقامی مسلمانوں کے مطابق پہلے ایک سو سے زائد مقامات پر نماز کی اجازت تھی جسے کم کیا جاتا رہا اور اب صرف چھ مقامات رہ گئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 19 مساجد یا تو بند ہیں یا ان پر دوسروں کا قبضہ ہے۔
مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت یا تو کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت دے ورنہ مسجدوں کی تعمیر کے لیے جگہیں فراہم کرے۔
خیال رہے کہ وزیِر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سے قبل ریاستی وزیر داخلہ انل وِج بھی کہہ چکے ہیں کہ کھلی جگہوں پر نماز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دائیں بازو کی تنظیم ’بھارت ماتا واہنی‘ کا کہنا ہے کہ سرکاری پارک اور اس طرح کی کھلی ہوئی جگہیں تمام مذاہب کے ماننے والوں کی ہیں۔ لہٰذا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کو عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔