بھارت میں مرکزی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 برس سے بڑھا کر 21 برس کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔
بھارت کے اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بدھ کو کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران لیا گیا ہے۔ کابینہ نے چائلڈ میرج ایکٹ 2006، اسپیشل میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955 میں ترمیم کی منظوری دی ہے۔
بھارت میں اس وقت لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 برس ہے جب کہ لڑکوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 21 برس مقرر ہے۔ رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ متعدد وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔
کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچیوں کا حاملہ ہونا اور اس دوران ماں اور بچوں کی صحت سے متعلق مسائل، ذہنی اور جسمانی صحت متاثر، زچگی کے دوران ماں اور بچوں کی اموات اور خواتین کو تعلیمی اور معاشی خود مختاری تک رسائی سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شادی کی قانونی عمر بڑھانے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟
سن 2020 میں بھارت کی وزارت برائے ویمن اینڈ چائلڈ ڈویلپمنٹ نے خواتین کی کم عمر میں شادی کی وجہ سے ان میں غذائیت، خون کی کمی اور دیگر سماجی مسائل کے تعلق کو مدِ نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔
یہ کمیٹی سیاسی جماعت سمتا پارٹی کی سابق صدر جیا جیٹلی کی سربراہی میں بنائی گئی تھی جس میں کئی وزارتوں اور اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
کمیٹی خواتین کی شادی کی قانونی عمر میں اضافے کو قابلِ عمل بنانے اور اس کے خواتین اور بچوں کی صحت پر اثرات اور تعلیم تک رسائی کے مواقع بڑھانے پر کام کر رہی تھی۔
کمیٹی کو ان تمام عناصر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سفارشات تجویز کرنی تھیں جس کے بعد حکومت کو قوانین میں ترمیم کر کے پالیسی پر عمل درآمد کرنا تھا۔
کمیٹی نے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر کو 21 برس کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ تجویز بھارت بھر کی 16 یونیورسٹیوں کی نوجوان خواتین کی رائے کی بنیاد پر دی گئی تھی۔
اس ضمن میں 15 سے زائد غیر سرکاری تنظیموں نے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کی رائے حاصل کی تھی۔
کمیٹی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ رائے دیہی اور شہری علاقوں میں موجود تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی بالغ افراد سے اخذ کی ہے۔
فیصلے پر ردِ عمل
کہیں بھارتی حکومت کے خواتین کی شادی کی قانونی عمر کی حد کو بڑھانے کے فیصلے کو سراہا جا رہا تو کوئی اس فیصلے کے حق میں نہیں ہے۔
بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کے مطابق بچوں کے حقوق سے متعلق سرگرم غیر سرکاری تنظیم 'حق: سینٹر فار چائلڈ رائٹس' کی ڈائریکٹر بھارتی علی کا کہنا ہے "کسی کو اس بات سے اختلاف نہیں ہے لڑکیوں کی کم عمر میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔"
ان کے بقول ہمیں لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے اس طرح وہ خود سے جلدی شادی نہیں کرنا چاہیں گے۔
دوسری جانب نئی دہلی کے سوشل ریسرچ سینٹر کی ڈائریکٹر رانجنا کماری نے قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کو سراہتی ہیں کہ لڑکی اور لڑکوں دونوں کی شادی کرنے کی قانونی عمر ایک ہی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اب حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے لوگوں کی عمومی رائے تبدیل کرنے پر بھی کام شروع کرے کیوں کہ یہ مسئلہ صرف قانون سازی سے حل نہیں ہوگا۔
دوسری جانب بھارت کی خواتین کے حقوق پر آواز اٹھانے والی انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل فلیویہ ایگنس نے 'الجزیرہ' سے گفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے کو تباہ کن قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے اور ان کے والدین زیادتی یا بغیر اجازت چھپ کر شادی کے ڈر سے لڑکیوں کو اپنے گھروں میں نہیں رکھنا چاہتے۔