کراچی کے کئی علاقے جیسے نارائن پورا، بھیم پورا اور لائٹ ہاؤس پر واقع سوامی نارائن مندر کمپاؤنڈ پچھلے دس بارہ دن سے مسلسل جگما رہے تھے۔ یہاں ہندؤ اور سکھ برادری کی اکثریت آباد ہے۔
دس دنوں سے یہاں ’نوراتری‘ اور’دسہرے‘ کے تہواروں کا جشن منایا جا رہا تھا۔ دسہرا دس اور نو راتری۔۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، بالترتیب نو اور دس دن تک منایا جاتا ہے۔ دسہرا نوراتری کے اختتام پر منایا جاتا ہے اور اس کے 20 دن بعد دیوالی کا تہوار آتا ہے۔
ان 10 دنوں میں ہر رات رام اور سیتا کی روایتی کہانی ’رام لیلا‘ کو اسٹیج پر مختلف کرداروں کی شکل میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے۔
تہوار کے آخری دن برائی کے دیوتا ’راون‘ کا تقریباً 50 فٹ اونچا پتلا جلایا جاتا ہے۔ پتلے میں پٹاخے بھرے ہوتے ہیں اور آگ لگنے سے وہ باری باری پھٹتے ہیں اور انہی کے شور میں یہ تہوار اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
لیکن اس بار دسہرا، نوراتری اور محرم قریب قریب تاریخوں پر تھے۔ تاہم، مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی غرض سے کراچی کی ہندو برادری نےمحرم الحرام کے احترام میں ’رام لیلا‘ پیش نہ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ راون کا پتلا بھی نہ جلائے جانے کا فیصلہ ہوا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔
سوامی نارائن مندر کی انتظامیہ کے نائب صدر کشن لال نے وی او اے سے بات چیت میں کہا ’’ہم سے کسی نے ایسا کرنے کے لئے نہیں کہا۔ لیکن، مسلمان ہمارے بھائی ہیں۔ وہ ہمارا احترام کرتے ہیں اور ہم ان کا۔ محرم کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ اس روز پیش آنے والے واقعے کا احترام کیا جائے۔لہذا، ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا۔‘‘
تعزیہ سازی میں ہندوؤں کا حصہ
سول اسپتال کے قریب واقع نارائن پورا ایک ایسا کمپاؤنڈ ہے جہاں کئی ہزار ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ تاہم، اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ راجیش بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
لیکن، ہندو ہونے کے باوجود وہ ہر سال محرم کے موقع پر تعزیہ بناتے ہیں اور کے ایم سی کے ڈپو نمبر 11 پر اس کی کئی دن تک زیارت کرائی جاتی ہے۔ ان کا تعزیہ سات محرم کو نکلنے والے جلوس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔
وی او اے کے نمائندے سے گفتگو میں راجیش، ان کے قریبی دوست اوما اور ایک نوجوان لکشمن نے بتایا ’’راجیش کے پاس تعزیہ سازی کا باقاعدہ لائسنس موجود ہے اور پہلی مرتبہ یہ لائسنس ان کے دادا نے حاصل کیا تھا۔ یہ واقع 70 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ اس وقت کا جبکہ پاکستان معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا‘‘۔
راجیش میں تعزیہ سازی کا فن نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔ دادا نے اس کا آغاز کیا جبکہ راجیش کے والد بھی عمر بھر تعزیہ سازی میں پیش پیش رہے اور اب راجیش یہی فریضہ سالوں سے انجام دے رہے ہیں۔
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ نارائن پورا سے شروع ہی سے صرف ایک تعزیہ نکلتا ہے جو راجیش جی کا ہوتا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص تعزیہ نہیں بناتا۔
راجیش رات کو کام کرنے کے عادی ہیں۔ رات نو دس بجے تعزیہ بنانا شروع کرتے ہیں اور صبح آٹھ نو بجے اس کا اختتام ہوتا ہے۔ دن وہ سو کر گزارتے ہیں اور اسی لئے بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں یہاں تک کہ اوما جیسا ان کا ایک آدھ ہی کوئی اور دوست ہوگا۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ راجیش سالوں سے بین المذاہب میں ہم آہنگی کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ایسی مثالوں کا ہمارے معاشرے میں عنقا ہے۔