خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقہ ٹیری میں ہندوؤں کے پیشوا، پرم ہنس کی سمادھی اور ملحقہ مندر میں توڑ پھوڑ کے الزام میں 350 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے 31 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کرک کے ضلعی پولیس افسر عرفان اللہ خان نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما بھی شامل ہیں جن میں پارٹی کے ضلعی سربراہ مولانا میر زاقیم خان اور صوبائی رہنما رحمت سلام خٹک بھی شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق انہوں نے سمادھی کے احاطے کو کنٹرول میں لے لیا ہے اور تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ضلعی پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ مزید افراد کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہے جب کہ مندر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
چیف جسٹس کا ازخود نوٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے واقعے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے پانچ جنوری کو معاملے پر سماعت کے لیے متعلقہ حکام کو طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا اور انسپیکٹر جنرل آف پولیس کو چار جنوری تک عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
ہندوں برادری کے رہنما ہارون سربدیال نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومتی ادارے غیر مسلموں کی عبادت گاہ کے تحفظ پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔
اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف کرک واقعہ میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کیا جائے بلکہ خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں تمام غیر مسلم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
ہارون سربدیال کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے بین المذاہب ہم آہنگی اور صوبے میں سیاحت کے فروغ کی کوششوں کو دھچکہ لگا ہے۔
اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل شرعی قوانین کے تحت اس واقعے میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کی سفارش کرے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔
کرک واقعہ کے خلاف کراچی اور ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا، محمود خان نے بھی واقعہ کا نوٹس لے کر ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے۔
مندر کی تاریخ اور تنازع کی وجہ کیا ہے؟
علاقہ ٹیری کے رہائشی وسیم خٹک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہندوؤں کے گرو، پرم ہنس جی مہاراج کا جب 1919 میں انتقال ہوا تو ان کی سمادھی ٹیری میں بنائی گئی۔ جس کی زیارت کے لیے صوبہ سندھ کے بیشتر حصوں سے ہندو برادری کے افراد آتے رہتے تھے۔ تاہم 1997 میں مشتعل ہجوم کے حملے میں مندر کو مسمار کر دیا گیا تھا۔
وسیم خٹک کے مطابق ہندو برادری نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے اپنے 2015 کے فیصلے میں ہندو برادری کو دوبارہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔
وسیم خٹک کے مطابق ہندو برادری کے ارکان جب زیارت کے لئے ٹیری آتے تھے تو ان کا قیام صرف چند گھنٹوں کے لئے ہی ہوتا تھا۔ کیوں کہ ان کے لیے وہاں آرام کرنے کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔
چند ماہ قبل آرام گاہ کی غرض سے ہندو برادری نے مندر سے ملحقہ ایک گھر خریدا جس سے علاقے کے افراد میں یہ تاثر پھیلا کہ ہندو دوبارہ سے اپنی آبادی بڑھانا چاہتے ہیں۔ جسے انہوں نے گرانا چاہا لیکن مشتعل ہجوم نے پوری عمارت کو نقصان پہنچایا۔
مندر کے منتظم پریم تلریجا کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چھ مرلہ کی جگہ پر ایک ہال تعمیر کیا گیا۔ جس کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں گرو کی تصویر اویزاں کی گئی۔ جب کہ ایک چھوٹا سٹور، ایک کچن اور دو الگ الگ باتھ روم مرد اور خواتین کے لئے بنائے گئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پریم تلریجا نے مزید بتایا کہ دور دراز سے آنے والی خواتین کے بندوبست کے لیے مندر سے ملحقہ ایک گھر کو خریدا گیا لیکن علاقے کے افراد نے اسے سول کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ تاہم 22 دسمبر کو ہندو برادری اور علاقے کے افراد کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا گیا جس میں ضلعی پولیس آفیسر اور ڈپٹی کمشنر کے دستخط موجود ہیں۔
مندر کے منتظم نے مزید بتایا کہ تاہم انھیں کچھ ذرائع سے اطلاع ملی کہ بدھ کے روز ایک جلسہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس کے بعد مندر کو نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ تمام معاملہ پولیس کے علم میں لائے۔ جس کے بعد انھیں تحفظ کی یقین دہانی دلائی گئی۔
ان کے مطابق وہ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بروقت معلومات ہونے کے باوجود اتنا بڑا سانحہ کیسے واقع ہو گیا۔
پریم تلریجا کے مطابق کرشن گرو پرم ہنس مہاراج کے مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس لحاظ سے یہ مندر ہندو برادری کے لئے بہت عقیدت کا حامل ہے۔ ان کے مطابق مندر کا نام کرشن دوارہ ہے۔
سیکورٹی لیپس کو رد کرتے ہوئے ضلعی پولیس آفیسر عرفان اللہ نے بتایا کہ انھیں جلسے کے بارے میں بتایا ضرور گیا تھا تاہم انھیں سیکورٹی کے حوالے سے گارنٹی دی گئی تھی۔ تاہم جلسے میں ایک شخص کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا جو کہ قابو سے باہر ہو گیا جس کا نتیجہ مندر کے انہدام کی صورت میں برآمد ہوا۔