رسائی کے لنکس

تحریک لبیک کے دھرنوں کی تاریخ، کب کیا ہوا؟


قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک مختلف دہائیوں میں کئی مذہبی تنظیمیں مختلف مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں البتہ حالیہ برسوں میں سنی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھری ہے۔

تنظیم کے تازہ ترین مطالبات میں فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور رواں برس اپریل میں دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتار اس جماعت کے امیر سعد رضوی کی رہائی بھی شامل ہے۔

ٹی ایل پی کے مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کے دوران ہلاکتوں کے علاوہ کئی روز تک ملک میں نظامِ زندگی مفلوج رہنے اور شہریوں کے جان و مال کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے مختلف حکومتوں کے لیے یہ مسئلہ دردِ سر بنا رہتا ہے۔

تحریک کے دھرنوں کے باعث حکومتوں کی جانب سے بھی بڑے فیصلے لیے جاتے رہے, کبھی وزرا کے استعفے تو کبھی فرانس کے خلاف قرارداد کی منظوری کے ذریعے بھی ان دھرنوں کو ختم کیا جاتا رہا۔

اب نظر ڈالتے ہیں کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک تحریک لبیک نے کتنے دھرنے دیے اور حکومت نے تحریک کے کون کون سے مطالبات تسلیم کیے۔

ممتاز قادری کی پھانسی، ڈی چوک پر دھرنا

توہین مذہب کا الزام لگا کر جنوری 2011 میں پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہل کار ممتاز قادری کی 2016 میں پھانسی کے بعد تحریک لبیک منظم ہوئی۔

ممتاز قادری کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ملک بھر سے ہزاروں افراد لیاقت باغ آئے جن میں خادم حسین رضوی سمیت سنی مکتبِ فکر کے دیگر علما بھی شریک ہوئے۔

نماز جنازہ کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کئی مقامات پر اہلِ سنت جماعتوں کے دھرنوں کے باعث نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

اس دوران دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔

گو کہ اس وقت تحریک لبیک کی باقاعدہ بنیاد نہیں رکھی گئی تھی، تاہم اہلِ سنت علما خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری، انجینئر ثروت اعجاز قادری اور علامہ اشرف آصف جلالی سمیت ہزاروں کارکنوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔

کئی روز تک جاری رہنے والے دھرنے کے باعث وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹریفک کا نظام متاثر رہا جب کہ مشتعل افراد نے میٹرو بس اسٹیشنز سمیت املاک کو بھی نقصان پہنچایا جس پر متعدد افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شامل بریلوی مکتبۂ فکر کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے بعد گرفتار کارکنوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے کی حکومتی یقین دہانی پر دھرنا ختم ہوا۔

فیض آباد دھرنا (نومبر 2017)

سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں مبینہ تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اس وقت کے وزیرِ قانون کا استعفیٰ طلب کیا۔

تحریک نے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔ بعد ازاں فوج کی مداخلت یا ثالثی کے بعد حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ٹی ایل پی دھرنا ختم کرنے پر راضی ہو گئی جس کے تحت وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد مستعفی ہوئے۔

ماہرین کے مطابق حکومت کو معاہدے کے لیے دباؤ میں لانے میں کامیابی سے ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ مزید منظم ہوئی۔

اسی دھرنے پر سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا جو فیض آباد دھرنا کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عدالتی حکم میں سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔

اس دوران ایک فوجی افسر کی جانب سے دھرنے کے اختتام پر شرکا میں رقوم تقسیم کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس پر سوشل میڈیا پر بھی ردِعمل سامنے آیا تھا۔

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی پر دھرنا

اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ مذہب میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دیا تو تحریک لبیک نے ایک بار پھر ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی۔

تحریک لبیک کے احتجاج کے باعث ملک بھر میں نظامِ زندگی ایک بار پھر مفلوج ہو کر رہ گیا اور مختلف شہروں کے اہم مقامات پر تحریک کے کارکنوں نے دھرنے دے دیے۔

اس دوران پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے ٹی ایل پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے بعد پانچ نکاتی معاہدہ طے پایا۔

خادم حسین رضوی گزشتہ برس نومبر میں انتقال کر گئے تھے۔
خادم حسین رضوی گزشتہ برس نومبر میں انتقال کر گئے تھے۔

معاہدے میں آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے، آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے اور تحریک کے کارکنوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے پر اتفاق کیا گیا۔

خادم رضوی اور پیر افضل قادری کی گرفتاری

نومبر 2018 میں لاہور کے چیئرنگ کراس میں دھرنے کے دوران ریاستی اداروں، فوج اور عدلیہ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے الزام میں ٹی ایل پی کے رہنماؤں پیر افضل قادری اور خادم حسین رضوی کو گرفتار کر لیا گیا۔

بعد ازاں مئی 2019 میں پیر افضل قادری اور خادم حسین رضوی کو لاہور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔

رہائی کے بعد ایک ویڈیو بیان میں پیر افضل قادری نے چیئرنگ کراس میں اپنی تقریر پر معذرت کرتے ہوئے تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔

فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج (نومبر 2020)

فرانس میں گزشتہ برس اکتوبر میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدر کی اس اقدام کی حمایت پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر اسلام آباد مارچ کی کال دے دی۔

ٹی ایل پی کا احتجاج روکنے کے لیے پولیس نے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینر کھڑے کر دیے اور اس دوران جھڑپوں میں پولیس اہل کار اور ٹی ایل پی کے کارکن زخمی بھی ہوئے۔

ٹی ایل پی کا مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طور پر فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرے اور فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط بھی ختم کیے جائیں۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے فرانس کے حوالے سے سخت مؤقف اپنانے اور سفیر کی بے دخلی کی یقین دہانیوں کے بعد ٹی ایل پی کے کارکن منتشر ہو گئے۔

فیض آباد میں دھرنے کی ایک اور کال (اپریل 2021)

فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانس سے تعلقات منقطع نہ کرنے پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر 20 اپریل کو فیض آباد میں دھرنے کی کال دے دی۔

البتہ اس سے قبل نومبر 2020 کو خادم رضوی کے انتقال کے بعد امیر بننے والے اُن کے بیٹے سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔

ٹی ایل پی کا احتجاج روکنے کے لیے پولیس اور رینجرز نے طاقت کا استعمال کیا اور لاہور کا علاقہ یتیم خانہ میدانِ جنگ کا منظر پش کرتا رہا۔ اس دوران جھڑپوں میں دو پولیس اہل کاروں سمیت پانچ افراد ہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت قرار دے کر اسے تحلیل کرنے کی کارروائی بھی شروع کر دی اور فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے لیے اسمبلی میں قرارداد لانے سے بھی انکار کر دیا۔

البتہ اس سب کے باوجود جب ٹی ایل پی اسلام آباد کی جانب مارچ پر بضد رہی تو حکومت نے فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے اسمبلی میں قرارداد لانے کی حامی بھر لی۔

XS
SM
MD
LG