پاکستان میں انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے تقرر پر فوج اور وزیر اعظم کے درمیان مبینہ اختلافات کی خبریں اور ملک میں اسی دوران تحریک لبیک پاکستان اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف مظاہروں کو بعض تجزیہ کار ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دے رہےہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس سے اپوزیشن شاید کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اس لئے کہ فوج اور وزیر اعظم کے درمیان اس معاملے پر اختلاف ضرور ہے۔ لیکن یہ تعلقات میں کسی بڑے بریک ڈاؤن پر منتج نہیں ہوسکتا؛ جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہفتے کے روز اپنی بیرون ملک روانگی سے قبل، ہو سکتا ہے کہ اس تقرری کا اعلان بھی کر دیں۔
ریٹائرڈ جنرل غلام مصطفے ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈی جی کی تقرری ایک معمول کا معاملہ ہے اور یہ وزیر اعظم کا حق اور اختیار ہوتا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف اس عہدے کے لئے جو نام پیش کرے، اسے وزیر اعظم قبول کرے یا کوئی متبادل نام پیش کردے۔ اور انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس بار بھی یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا۔ اور وزیر اعظم کی جانب سے منظوری کے بعد فوج کی جانب سے اسکا اعلان ہوا ہو گا۔ اور اعلان کے بعد جو کچھ ہوا وہ ناقابل فہم ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم چاہتے تو نام پر تبادلہ خیالات کے دوران اپنی چوائس دے سکتے تھے اور فوج یقیناً اسے مانتی۔ پھر انہوں نے کہا کہ جس طرح سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اچھالا گیا اس پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ کیونکہ فوج کے ادارے سے تو اس وقت تک کوئی بات باہر نہیں آسکتی جب تک فریقین کے اتفاق رائے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کے دستخط نہ ہوں اور اس کو حتمی شکل نہ دے دی جائے۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ اس اختلاف کا نتیجہ کیا نکلے گا، انہوں نے کہا کہ قیاس آرائیاں تو بہت ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اختلاف رائے اس حد تک چلا جائے کہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو جائے۔ اور انہوں نے کہا کہ بہت جلد یہ معاملہ طے ہو جائے گا۔
انہوں نے بعض حلقوں کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ ٹی ایل پی یا اپوزیش، حکومت اور فوج کے درمیان اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں یا راولپنڈی کے اشارے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کے لئے بلا شبہہ یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھے سول ملٹری تعلقات میں بڑی دراڑ ڈالنے کی کوشش کریں یا اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
ٹی ایل پی کے حوالے سے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوج پر اسکے حوالے سے الزام لگتا رہتا ہے۔ مگر یہ سوچنے کی بات ہے کہ فوج کو اس کی ضرورت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس جماعت کو پنجاب کی ایک سابقہ حکومت کی پوری حمایت حاصل تھی اور فوج نے اسوقت کے وزیر اعلیٰ کو بتا دیا تھا کہ انہیں سنبھالیں، ورنہ یہ آئندہ بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔
سلمان عابد ایک ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرر کے مسئلے پر وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ کے درمیان کافی حد تک مشاورت پہلے مکمل ہو چکی تھی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ انکے خیال میں تنازعہ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر سے زیادہ اپوزیشن اور فوج کے نمائندوں کے درمیان پس پردہ ملاقاتوں کا تھا، جس پر وزیر اعظم کو، ان کے بقول، سخت اعتراض تھا۔ اس کے علاوہ انہیں اپوزیشن رہنماؤں کے مقدمات کے حوالے سے بھی اسٹیبلشمنٹ کے رویئے پر تحفظات تھے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اختلاف کی وجہ تقرری سے زیادہ ان اپوزیشن رہنماؤں کے مقدمات کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا رویہ اور پس پردہ ملاقاتیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے حساس نوعیت کا مسئلہ رہا ہے۔ اور اس حوالے سے چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اس بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں ہوں یا تحریک لبیک، وہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان اس اختلاف سے فائدہ اٹھا کر فوج کی حمایت کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ سمجھ کر کہ حکومت دباؤ میں ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ممکن نہں ہو پائے گا۔ اور خبریں یہ بھی ہیں کہ جو کچھ طے ہوا ہے اور جو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، اسی کے مطابق یہ تقرری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک تحریک لبیک کا تعلق ہے، انکے خیال میں اس نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت دباؤ میں ہے، تو وہ کم از کم سعد رضوی کی رہائی کا مقصد تو حاصل کر لیں۔
احمد جواد پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ وہ سمری پر دستخط فوری طور کردیں یا اس میں وقت لگائیں۔ انہوں کہا کہ کسی اور ملک میں تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان میں چونکہ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں اور یہ بہت غیر معمولی بات نظر آتی ہے کہ فوج کے سربراہ جو کچھ کہیں اس پر فی الفور عمل نہ ہو اس لئے اسے مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ جب وزیر اعظم نےڈی جی آئی ایس آئی کے نام پر اتفاق کرلیا تھا اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم کی منظوری کے بعد ہی نام کا اعلان ہوتا ہے۔ تو اس معاملے میں وزیر اعظم نے اتفاق کرنے کے باوجود اسے موخر کیوں کیا، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت سی قیاس آرائیاں بھی ہیں۔ اس لئے ہر بات پر یقین نہیں کیا جانا چاہئیے۔
جب پوچھا گیا کہ ان خبروں میں کتنی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کے بعض رہنماؤں سے فوج کے نمائندوں کی پس پردہ ملاقاتوں کے سبب وزیر اعظم ناراض ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی سمری پر اب تک دستخط نہ کرنا اسی کا رد عمل ہے۔ احمد جواد نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اپوزیشن کسی نہ کسی حوالے سے فوج کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ اور وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں اور اسکا انہیں حق حاصل ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی ایک محدود علاقے میں تو سڑکوں وغیرہ کو بند کرنے کی استعداد رکھتی ہے، لیکن نہ عوام میں اسکی اتنی پذیرائی ہے نہ اتنی سیاسی قوت اس میں ہے کہ وہ حکومت کے لئے کوئی خطرہ بن سکے۔