دنیا بھر میں پاکستانی ڈراموں کی اتنی ہی دھوم ہے جتنی بالی ووڈ فلموں کی ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ پاکستانی ڈراموں کی تعریف خود بالی ووڈ والے بھی کرنا نہیں بھولتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے ٹی چینلز خاص کر ’زی زندگی‘مشہور ہی پاکستانی ڈراموں کے لئے ہے۔
مہیش بھٹ، پوجا بھٹ، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، رضا مراد گلزار اور ان جیسے بہت سے لیونگ لیجنڈ پاکستانی ڈراموں کو پاکستان کی منفرد پہچان قرار دیتے آئے ہیں اور کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بھارتیوں کو پاکستانی ڈراموں سے سیکھنا چاہئے۔
جب سے پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز آئے ہیں تب سے ڈراموں کے درمیان ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے اور آگے نکل جانے کا چلن بھی عام ہوا ہے۔ یہ مقابلہ 2016 میں بھی عروج پر رہا۔ اب جبکہ سال ختم ہونے میں ایک آدھ ہفتہ ہی رہ گیا ہے آیئے جائزہ لیں کس ڈرامے نے کتنی دھوم مچائی اور کون سے ڈرامے بنے اور چلے ضرور لیکن انہیں پذیرائی نہیں مل سکی ۔
اڈاری
ـ’اڈاری ـ‘اگر چہ پچھلی سہ ماہی میں ہی ختم ہوا ہے لیکن عوامی پسندیدگی کے حوالے سے دیکھیں تو پورے سال پیش کئے جانے والے ڈراموں میں یہ سب پر سبقت لے گیا۔ گلیمر کی چکاچوند اور روایتی ہیرو ہیروئن کی کہانیوں سے ہٹ کر بچوں سے زیادتی جیسے حساس موضوع پر بنائی گئی یہ سیریل ’ہم ٹی وی ‘ کی پیش کش تھی۔ عوامی پذیرائی میں اس ڈرامے نے کسی اور کو آگے آنے نہیں دیا۔
’اڈاری‘ کی کہانی ایک بچی زیبو کے گرد بنی گئی تھی جسے بچپن میں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تمام تر رکاوٹوں اور سماجی دباؤ کے باوجود وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنے لئے انصاف حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ ’اڈاری‘ میں ولن امتیاز کا رول احسن خان نے نہایت عمدگی سے نبھایا اورخوب داد وصول کی۔
پریت نہ کریو کوئی
پرانے لاہور کے پس منظر میں بنایا گیا ڈرامہ ’پریت نہ کریو کوئی‘ ایک رومینٹک نوجوان اور مضبوط لڑکی شگفتہ شہزادی کی کہانی ہے جو اپنے سیدھے سادھے اور مہربان سے منگیترکے بجائے ایک جھگڑالو اور غصہ کرنے والے شخص شمس کو دل دے بیٹھتی ہے۔
احتشام الدین کی ڈائریکٹ کردہ سیریل ’پریت نہ کریو کوئی‘ کا ساؤنڈ ٹریک بھی سننے اور دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔
سنگ مرمر
’سنگ مرمر ‘ میں روایتی پختون گھرانوں کے رہن سہن،میل جول ،دوستی اور دشمنی کی عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں بنائے گئے ’سنگ مرمر‘ میں ثانیہ سعید ،نعمان اعجاز،اعظمیٰ حسن سمیت تمام اداکاروں نے حقیقت سے قریب تراداکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔
خدا میرا بھی ہے
’خدا میرا بھی ہے‘ میں خواجہ سرا ؤں کی سماج میں پوزیشن اور ان کے بارے میں لوگوں کے رویوں اور سوچنے کے انداز کو موضوع بنایا گیا ہے۔ عائشہ خان نے ایک ایسے بچے کی ماں کا کردار نبھایا ہے جس کا تعلق تیسری جنس سے ہے۔ ٹیپو نے ببلی کا کردار کچھ اس اندازسے اداکیا کیا کہ دیکھنے والوں کو جذباتی اور آنکھوں کونم کر گیا۔
گل رعنا
گل رعنا سال 2016کی ایک ایسی سیریل ثابت ہوئی جس سے لوگوں کو توقع تھی کہ کچھ نیا اور اچھا دیکھنے کو ملے گا لیکن ایسا ہونہ سکا۔ سجل علی نے ڈرامے میں ٹائٹل رول ادا کیا۔ ان کے اکھڑ اور بدمزاج کزن کے روپ میں نظر آئے فیروزخان جنہیں ولن دکھانے کے لئے ہرجتن کیا گیا۔ کمزور کہانی اور ربط کے فقدان نے’ گل رعنا‘ کو فلاپ سیریل کی لسٹ میں شامل کرادیا۔
ذرا یا د کر
’ذرا یاد کر‘ گو کہ کچھ لوگوں نے پسند کیا لیکن ڈرامے میں دکھائی گئی اپنے شوہرکو کسی اور کے لئے چھوڑنے کی منصوبہ بندی کرتی خودغرض بیوی اور شوہرکا ہربات جاننے کے باوجود اپنی بیوی سے لگاؤ کا اظہارکرنا ناظرین پر کوئی مثبت تاثر قائم نہ کرسکا۔ ڈرامے کے بہت سے مناظر غیرحقیقی لگے جبکہ کہیں کہیں اداکاری میں بھی جھول نظرآیا۔
مورمحل
ڈرامہ سیریل مورمحل کے چرچے آن ائیرہونے سے پہلے ہی بہت تھے جس کی وجہ مہنگی سیریل اور اسٹار کاسٹ کا ہونا تھا۔ ’مورمحل ‘تاریخی پس منظرمیں بنایا گیا ڈرامہ تھا جس کے شاندار سیٹ اور اداکاروں کے کاسٹیومز کو تو ناظرین نے سراہا لیکن ڈرامہ اپنا رنگ نہ جما سکا اور ثانیہ سعید،حنا خواجہ بیات،میشا شفیع ،عمیرجسوال اوردیگرکی بھرپور اداکاری کے باوجود ڈرامہ ہٹ نہ ہوسکا۔
من مائل
غیرحقیقی اور فلمی انداز کی اسٹوری کی وجہ سے ٹی وی کے خوبرو اور نوجوانوں میں بے حد مقبول حمزہ عباسی اور خوبصورت اداکارہ مایا علی بھی من مائل کوبلاک بسٹرنہ بنا سکے۔ڈرامے میں مظلوم اور معصوم لڑکی کا ہرظلم و ستم خاموشی سے سہے جانا بھی ناظرین کے لئے امتحان بن گیا۔
البتہ من مائل کی جوچیز سب سے زیادہ’ ہٹ‘ ہوئی خصوصا سوشل میڈیا پر وہ ڈرامے میں ولن کاکردار ادا کرنے والی عائشہ خان کا یہ ڈائیلاگ تھاکہ ’میرے توماں باپ بھی نہیں ہیں‘ یہ ڈائیلاگ انہوں نے ہیرو کو جذباتی بلیک میل کرنے کے لئے بولا تھا۔