اینٹی وائرل دواؤں کی دستیابی کے باوجود، 2009ء میں تقریباً دو کروڑ 60لاکھ نئے افراد ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہوئے، اور ایک کروڑ 80لاکھ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
کیتھی بنیٹ 21برس سے ایچ آئی وی انفیکشن کے ساتھ زندہ ہیں۔1990ء میں جب اُن کے مرض کی تشخیص ہوئی، تو اُن کے بچنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے ڈاکٹر نے اُن کا علاج ایسی دواؤں کے ذریعے شروع کیا جو انتہائی زہریلی ثابت ہوئیں اور پھر اُس نے علاج بند کرکے اُنھیں گھر چلے جانے کو کہا۔
کیتھی نے بتایا کہ وہ چار ماہ تک بستر پر پڑی موت کا انتظار کرتی رہیں، کیونکہ ڈاکٹر نے اُنھیں کہا تھا کہ وہ کسی طرح کا بھی علاج نہیں کرسکتے۔ تاہم، جب کیتھی بنیٹ نے نئی ادویات کا استعمال شروع کیا اُن کی زندگی بدل گئی اور نہ صرف یہ کہ اب اُن کی حالت بہت بہتر ہے، بلکہ وہ ایڈز کے مریضوں کے لیے کونسلر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ اب جب کہ اُنھیں معلوم ہو گیا ہے کہ اِس وائرس کو کس طرح کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے، وہ موت کے خوف سے باہر نکل آئی ہیں۔اُن کے الفاظ میں، ’میں ایک عام زندگی گزار رہی ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں ایک لمبے عرصے تک زندہ رہوں گی۔‘
لیکن، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اینٹی وائرل دواؤں کی دستیابی کے باوجود نہ صرف کثیر تعداد میں نئے لوگ اِس مرض کا شکار بن رہے ہیں، بلکہ بہت سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔
1987ء وہ سال تھا جب پہلی بار ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کا کوئی علاج تلاش کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ’اے زیڈ ٹی‘ نامی دوا کو پہلی بار منظور کیا گیا تھا۔ڈاکٹر رابرٹ گیلو، اُس تحقیق اور علاج کی دریافت میں شامل تھے۔
وہ اِس علاج کے دریافت کے وقت اپنی کیفیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وائرس کم ہوسکتا ہے اور آپ اُس کی پیمائش کرکے گھٹتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دوا زہریلی تھی، لیکن ایڈز سے متعلق علامتیں اور نشانیاں غائب ہوتی نظر آتی تھیں۔
لیکن، یہ بلند امیدیں اُس وقت دم توڑ گئیں جب ایچ آئی وی وائرس میں’ اے زیڈ ٹی‘ کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی۔ پھر، 1990ء کی دہائی میں دواؤں کا ایک مؤثر امتزاج تیار کیا گیا اور وہی آج تک ایڈز کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: