رسائی کے لنکس

اقتصادی سروے برائے -11 2010ء اعدادو شمار کے آئینے میں


اقتصادی سروے برائے -11 2010ء اعدادو شمار کے آئینے میں
اقتصادی سروے برائے -11 2010ء اعدادو شمار کے آئینے میں

وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ اقتصادی سروے برائے -11 2010ء میں مختلف مدوں میں جو اعداد وشمار جاری کئے گئے ہیں ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:

مجموعی شرح خواندگی میں اضافہ

پاکستان کی مجموعی شرح خواندگی (عمر دس سال تا زائد) میں 0.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شرح خواندگی 2009-10ء میں 57.7 فیصدتھی۔ مردوں کی شرح خواندگی (عمر دس سال تا زائد) 2009-10ء میں 69.5 فیصد رہی جبکہ یہ 2008-09ء میں 69.3 فیصد تھی۔ خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہواجو اسی مدت میں 44.7 فیصد سے بڑھ کر 45.2 فیصد ہو گئی۔

اقتصادی سروے کے مطابق شرح خواندگی 2009-10ء میں شہری علاقوں میں 73.2 فیصد اور دیہی علاقوں میں 49.2 فیصد رہی۔ پنجاب میں شرح خواندگی 59.6، سندھ میں 58.2، خیبرپختونخوا میں 50.9 فیصد اور بلوچستان میں 51.5 رہی۔

وزارت تعلیم کے مطابق ملک میں کل 228,376 تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں اور ان میں 38.22 ملین لوگ رجسٹرڈ ہیں جبکہ اساتذہ کی تعداد 1.41 ملین ہے۔

بنیادی صحت مراکز اور دیہی مراکز صحت

مالی سال 2010-11ء کے دوران 35 بنیادی صحت مراکز اور 13 دیہی مراکز صحت قائم کئے گئے جبکہ 40 دیہی صحت کے مراکز اور 850 بنیادی صحت کے مراکز کا درجہ بڑھایا گیا ہے۔ 4500 ڈاکٹروں، 400 دندان ساز، 3200 نرسوں اور 5000 طبی کارکنوں نے تربیت مکمل کی، مزید 4300 بستروں کے اسپتالوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

ملک میں 972 اسپتال، 4842 ڈسپنسریاں، 5344 بنیادی مراکز صحت اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کے 906 مراکز ہیں۔ مالی سال 2010-11ء تک اسپتالوں میں144,901 ڈاکٹر، 10,508 دندان ساز، 73,244 نرسیں اور 104,137 بستر مہیا ہیں۔

بلحاظ آبادی 1,222 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر، 16854 افراد کیلئے ایک دندان ساز اور 1,701 افراد کے اسپتال میں ایک بستر موجود ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق صحت عامہ کے عمومی مسائل سے متعلق پروگرام شروع کئے گئے ہیں جن میں کینسر کا علاج، ایڈز سے بچاؤ اور ملیریا کے خاتمہ کا پروگرام شامل ہے۔

امسال 96,000 طبی خواتین کارکنوں (ایل ایچ ڈبلیو) کو تربیت دے کر انہیں دیہی علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ 80 لاکھ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے گئے اور 24 ملین نمکول کے پیکٹ تقسیم کئے گئے۔ اس سال صحت کیلئے 42 ارب روپے رکھے گئے جس میں 18.7 ارب روپے ترقیاتی اخراجات اور 23.3 ارب روپے جاری اخراجات کیلئے رکھے گئے جو 0.23 فیصد مجموعی قومی پیداوار کے برابر ہے۔گزشتہ سال 2009-10ء میں صحت کیلئے 79 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔

آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک

یہ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہے۔ اگر اضافہ کی یہ شرح جاری رہی تو سال 2015ء تک آبادی 191.7 ملین افراد ہو جائے گی جبکہ 2030ء تک یہ تعداد بڑھ کر 242.1 ملین ہو جائے گی۔ پاکستان میں آبادی کی شرح نمو 2.05 فیصد ہے جبکہ شرح تولید فی عورت اوسطاً 3.5 ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں مردوں کی اوسطاً متوقع عمر 64.18 سال اور خواتین کی اوسطاً متوقع عمر 67.9 سال ہے۔

افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کا 9 واں بڑا ملک

پاکستان افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کا 9 واں بڑا ملک ہے۔ ملک کی موجودہ کل آبادی 177.10 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں روزگار کیلئے کل افرادی قوت 54.92 ملین ہے اور یہ دنیا کا نواں افرادی قوت کا حامل ملک ہے۔ 2009-10ء میں بے روزگار افرادی قوت کا تخمینہ 3.05 ملین افراد تھا اور بے روزگاری کی شرح 5.6 فیصدتھی۔ زرعی شعبہ سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے۔ سال 2009-10ء میں 45 فیصد زرعی شعبہ میں، پیداواری شعبہ میں 13.2 فیصد جبکہ تجارت میں 16.3 فیصد روزگار مہیا ہوا۔ آبادی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے نیشنل پاپولیشن پالیسی 2010ء کے تحت شرح تولیدگی کی اوسط سطح 2030ء تک 2.1 فی عورت رکھی گئی ہے۔

غذائی اشیاء کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ

اقتصادی سروے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال مقامی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کے باعث ایک سال کے دوران 3.47 ملین لوگ خط غربت (یعنی آمدنی 1.25 ڈالر فی کس فی دن) کے نیچے رہ کر زندگی گزار رہے ہیں۔گزشتہ سال غربت میں 2.2 فیصد اضافہ ہوا ۔ چار سالوں میں غذائی افراط زر میں 18 فیصد اضافہ ہوا جو ظاہر کرتا ہے کہ قوت خرید میں کمی آئی ہے۔

خام پیداوار میں اضافہ

ملکی خام تیل کی پیداوار میں جولائی تا مارچ 2010-11ء کے دوران 750.81 بیرل یومیہ اضافہ ہوا۔ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ سال اس عرصے کے دوران خام تیل کی پیداوار 65,245.69 بیرل یومیہ تھی جو امسال بڑھ کر 65,996.50 بیرل یومیہ ہو گئی۔

پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کی مجموعی کھپت

پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کی کل ملکی کھپت دوران مدت ذرائع نقل و حمل کیلئے 47.82 فیصد رہی جبکہ بجلی کی پیداوار میں 42.84 فیصد، صنعتوں کے استعمال میں 6.66 فیصد اور زراعت کیلئے 0.26 فیصد رہی۔ حکومتی شعبہ 1.93 فیصد اور گھریلو صارفین نے 0.49 فیصد پٹرول اور اس کی مصنوعات استعمال کیں۔

مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں واپڈا نے 66,928 گیگا واٹ بجلی پیدا کی جبکہ اس سے پہلے سال اس مدت میں 64,935 گیگا واٹ بجلی پیدا ہوئی تھی۔ حالیہ مدت میں بجلی کی پیداوار میں 3.07 فیصد اضافہ ہوا۔ مارچ 2011ء تک 160,110 گاؤں کو بجلی فراہم کی گئی جبکہ مارچ 2010ء تک 147,038 گاؤں کو بجلی فراہم کی گئی تھی۔

سی این جی اسٹیشنزکی تعداد اور کوئلہ کی فراہمی میں اضافہ

امسال سی این جی اسٹیشن کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 3,329 ہو گئی۔ مارچ 2011ء تک 25 لاکھ گاڑیوں کو سی این جی ایندھن پر تبدیل کیا گیا۔ کوئلہ کی فراہمی میں اضافہ ہوا۔ جولائی۔مارچ 2011ء میں کوئلہ کی فراہمی 58 لاکھ 50 ہزار ٹن رہی جبکہ اس سے پہلے سال اسی مدت میں کوئلہ کی فراہمی 53 لاکھ 4 ہزار ٹن تھی۔

آبادی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل میں بھی اضافہ

سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی 177 ملین ہے، 222 افراد فی مربع کلومیٹر میں رہائش پذیر ہیں، 37 فیصد دیہی اور 63 فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ تیز تر شہری آبادی کی وجہ سے دستیاب ناکافی انفراسٹرکچر پر غیر معمولی دباؤ ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ آبادی اور فضائی آلودگی کے خطرات سے افزائش حیاتیات میں رکاوٹ ہے۔ شہروں کی فضائی آلودگی سب سے زیادہ مسائل پیدا کر رہی ہے۔

دو اسٹروک انجن گاڑیوں کی صنعت عروج پر

پاکستان میں دو اسٹروک انجن گاڑیوں کی صنعت عروج پر ہے جس میں 2000-01ء کی نسبت 142.6 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔رکشہ کی تعداد میں اس دوران 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ موٹر سائیکل اور اسکوٹر کی تعداد تقریباً دگنی سے زائد ہو گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG