فرانس کے صدر فرانسوا اولاند داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے اور شام کی خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لیے کئی ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں جس دوران وہ صدر براک اوباما سے منگل کو ملاقات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں رہنما امریکہ کی قیادت میں قائم داعش کے خلاف اتحاد میں تعاون کا دائرہ بڑھانے پر بات چیت کریں گے۔ یہ اتحاد ایک سال سے زائد عرصہ سے عراق اور شام میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
فرانس کے جنگی جہاز بھی ان کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ حکام نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کو بتایا کہ داعش کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ بڑھانے کے لیے شام میں زمینی فوج نہیں بھیجی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فرانس کی طرف سے پیش کی ایک قرارداد منظور کر لی تھی جس میں تمام ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی طرف سے ’’دہشت گردی کے اقدامات کو روکنے‘‘ کے لیے کوششیں کریں اور مشرقی شام اور عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں ان کے ’’محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ‘‘ کریں۔
قرار داد میں اس سال داعش کی طرف سے فرانس، مصر، تیونس اور لبنان میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ شدت پسند ’’بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک عالمی خطرہ ہیں۔‘‘
اوباما سے ملاقات سے پہلے اولاند برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کریں گے، جو شام میں فضائی کارروائیوں میں برطانیہ کے کردار کا دائرہ بڑھانے کے لیے برطانوی پارلیمان سے منظوری حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
جرمنی بھی اس اتحاد کا حصہ ہے مگر براہ راست کارروائیوں میں ملوث نہیں۔ اولاند بدھ کو روس کے صدر ولادیمر پوتن سے بات چیت کے لیے ماسکو جانے سے پہلے جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل سے ملاقات کریں گے۔
روس دو ماہ سے شام میں بمباری میں مصروف ہے مگر اسے مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائیاں داعش کی بجائے شامی صدر بشارالاسد کی مخالف باغی فورسز کے خلاف کی جا رہی ہیں۔
اوباما نے اتوار کو کہا کہ اگر روس شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی طرف توجہ دے تو یہ مددگار ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مصر میں روسی طیارے پر بمباری سے پوتن کو احساس ہوا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں داعش روس کی سب سے بڑا دشمن ہے۔