رسائی کے لنکس

لاس اینجلس میں آسکر سائی ٹیک ایوارڈز کی تقریب


ہالی وڈ میں اکیڈمی ایوارڈز سات مارچ کو دیے جائیں گے۔ دنیا بھر میں آسکر ز کے نام سے مشہور یہ ایوارڈ اکیڈمی آف موشن پکچرآرٹس اینڈ سائنسز کی کی جانب سے ہر سال دیے جاتے ہیں۔ اس سال کےسائنسی اور تکنیکی شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے ایوارڈز چند دن پہلے لاس اینجلس میں ہونے والی ایک تقریب میں تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ انہیں سائنٹیفک اینڈ ٹیکنیکل ایوارڈ کہا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ ہالی وڈ انڈسٹری میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے اعتراف میں دیے جاتے ہیں۔

سات مارچ اتوار کے شام ہالی وڈ کے درخشاں ستارے ایک پروقار تقریب میں اکٹھے ہوں گے۔ جب کہ پچھلے ہفتے لاس اینجلس میں تکنیکی شعبوں میں اعلی کارکردگی کے ایوارڈز کی تقریب میں سادگی نمایاں تھی۔ اس موقع پراکیڈمی کے صدر ٹام شیراک کا کہنا تھا کہ کیمرے کے پیچھے رہ کرکام کرنے والے انجنیئرز، موجد اورسافٹ ویئر ڈیزائنرز بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں ، جتنے کہ فلم کے پردے پر دکھائی دینے والے ستارے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کبھی ان کا نام نہیں سنتے، اور یقیناًوہ آپ کو پردے پرکبھی دکھائی بھی نہیں دیتے، آپ انہیں ٹیلی ویژن پر بھی کبھی نہیں دیکھتے ، لیکن فلم بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔

لاس اینجلس میں’سائی ٹیک‘ کے نام سے ہونے والی ایوارڈز کی سالانہ تقریب میں تکنیکی شعبوں میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات حاضرین کے سامنے اسٹیج پرآئیں۔ اس تقریب کی میزبانی معروف اداکارہ الزبتھ بینکس نے کی۔ وہ ’سی بسکٹ‘ اور فارٹی ایئر اولڈ ورجن‘ نامی مشہور فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہردکھاچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ٹکنالوجی کے بارے میں تھوڑا بہت جانتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمرے کے پیچھے اور پس منظر میں رہ کرکام کرنے والے انجنیئر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سائی ٹیک ایوارڈز کی تقریب میں پہلا ایوارڈ حاصل کرنے والے سویڈن کے انجنئر جورن ہیڈن تھے۔ انہوں نے تقریباً 40 سال قبل فلم کیمروں میں فوکسنگ کے لیے استعمال کی جانے والی ایک بے آواز موٹر ایجاد کی تھی اور انہیں آسکر ٹیکنیکل کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیاتھا۔

ہیڈن کا کہنا تھا کہ 1972ء میں بھی اس ایوارڈ کے لیے ان کی نامزدگی ہوئی تھی ، لیکن اس وقت وہ یہ ایوارڈ جیتنے میں ناکام رہے تھے۔

اس سال بہت سے ایوارڈزکمپیوٹر سافٹ ویئر ڈیزائن کے لیے مختص کیے گئے تھے۔

مائیکل بونیل اور ان کے ساتھیوں کو فلم اور گیمز انڈسٹری میں استعمال ہونے والے ان کے ایک سافٹ ویئر پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ سافٹ ویئر ، کمپیوٹر سے تخلیق کیے جانے والے کرداروں کو روشنیوں کی مدد سےزیادہ مؤثر اور زندگی سے قریب تر بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

بونیل کا کہنا ہے کہ ان کی تخلیق کو 30 سے زیادہ فلموں میں استعمال کیا جاچکاہے ، جن میں حال ہی میں ریلز ہونے والی کمپیوٹروں کرداروں کی فلم ’اپ‘ اور لائیو ایکشن فلم ’ آئرن مین‘ وغیرہ شامل ہیں۔

جرمنی کے انجنیئر کرسٹین بیکر(Christian Baeker) اور ان کے دوساتھیوں کو کلر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر بنانےپر ٹیکنیکل اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ ان کا کہناتھا کہ انہیں ایوارڈ پا کر بے انتہاخوشی ہوئی ہے اور انہوں نے کبھی اس کے بارے میں میں سوچا بھی نہیں تھا۔

بیکر اور ان کے ساتھی کلاس اینڈرل کی ایجاد سے پروڈکشن ٹیم کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ اس وقت جو فلم بندی ہورہی ہے، وہ سینماہال میں حقیقی طورپر پردےپر کس طرح نظر آئے گی۔

بیکر کا کہنا ہے کہ یہ اکیڈمی ایوارڈز پس منظر میں کام کرنےوالی سائنس، ٹیکنالوجی، اور فلم میکنگ کےآرٹ کی اہمیت کا اعتراف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ریاضی، فزکس اور کمپیوٹر پروگرامنگ ہے۔

تقریب کی میزبان الزیتھ بینکس نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انجنیئرنگ اور سائنسی ایجادات فلم کے پردے پر فن کاروں کو زیادہ بہتر انداز میں دکھانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان سے ہماری کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔اور ہمارے کردار لوگوں کے ذہنوں میں مدتوں کے لیے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اکیڈمی کے صدر ٹام شیراک کا کہناتھا کہ ان موجدوں اور نئی اختراعیں کرنے والوں نے فلم انڈسٹری کو ایسے ہنر اور چیزیں دی ہیں جس سے فلم سازی کے شعبے کو ایک نئی منزل میں داخل ہونے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ماضی میں بھی ہوچکا ہے جب فلم سازی ، خاموش فلموں سے بولتی فلموں کے دور میں داخل ہوئی تھی اور پھر اس سے اگلے مرحلے میں بلیک اینڈ وائٹ فلمی دنیا میں رنگوں کی بہار آئی تھی۔انہوں نے حال میں ریلز ہونے والی ہٹ فلم اواتار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلم سازی میں کمپیوٹر پر مبنی تکنیک اور تھری ڈی کے استعمال سے ہم ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG