جیسے جیسے 'آسکرز نائٹ' قریب آرہی ہے میڈیا اور فلمی حلقوں میں اس بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ کونسی فلم ہالی ووڈ کی اس سب سے بڑی تقریب کی فاتح ٹہرے گی۔
'آسکرز ' کا فیصلہ کرنے والی 'اکیڈمی آف موشن پکچر اینڈ سائنس' نے رواں سال بہترین فلم کیلیے نامزدگیوں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر دس کردی ہے جس کے بعد بہترین آسکر فلم کے انتخاب کا معاملہ مزید متنوع اور پیچیدہ قرار دیا جارہا ہے۔
کیوں نہ رواں سال آسکر کیلیے نامزد دس میں سے پانچ اہم ترین فلموں کا جائزہ لے کر یہ جانا جائے کہ آخر ان میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کی بنیاد پر انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز کیلیے نامزد کیا گیا اور کیا واقعی یہ فلمیں اس نامزدگی کی حق دار ہیں؟
'اِن سیپشن'
آسکرز کی اس دوڑ میں سب سے آگے کرس نولان کی "اِن سیپشن" قرار دی جارہی ہے۔ خواب اور انسانی لاشعور کی دنیا کی سیر کراتی اس فلم کو 'بیسٹ پکچر' کے علاوہ آسکرز کے سات دیگر شعبوں میں بھی نامزد کیا گیا ہے جن میں 'حقیقی اسکرین پلے'، 'اسکور'، 'سنیماٹو گرافی' اور 'ویژوول افیکٹس' شامل ہیں۔
"ان سیپشن" کی کہانی پراسراریت، ایکشن، خوف اور کرداروں کی نفسیات سے مل کر تخلیق پاتی ہے۔ لیکن مسحور کردینے والی 'سنیماٹو گرافی' کے باوجود فلم خاصی پیچیدہ ہے جو اپنےناظرین کے سامنے لاشعور کی کئی دنیائیں لاکھڑا کرتی ہے جنہیں یاد رکھنے میں انہیں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
'بلیک سوان'
کچھ ایساہی مسئلہ "بہترین مووی " کیلیے نامزد ڈیرن ارونوفسکی کی فلم "بلیک سوان" کے ساتھ بھی ہے۔ یہ فلم دراصل متضاد جذبات کی حامل نینا نامی ایک ایسی مرکزی بیلے ڈانسر کی کہانی ہے جو اپنے ان دیکھے دشمنوں سے خوفزدہ ہے۔ تاہم اس فلم کا پلاٹ بھی کئی غیر منطقی جزوی کہانیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے یاد رکھنا اور باہم مربوط کرنا دیکھنے والوں کیلیے ایک امتحان سے کم نہیں۔
اپنی فلم کیلیے "بہترین ہدایت کار" کی آسکرز نامزدگی حاصل کرنے والے ارونو فسکی کی پوری کوشش ہے کہ فلم بین مووی کے ہر اگلے لمحے کے متعلق قیاس آرائی پر مجبور ہو۔ تاہم ان کی اس کوشش کے نتیجے میں اکثر فلم بین کہانی کا ساتھ نہیں دے پاتے اور پلاٹ کی پیچیدہ گتھیوں ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
فلم کی منظر کشی متاثرکن جبکہ ملبوسات، سیٹ اور موسیقی عمدہ ہے۔ فلم میں بیلے ڈانسر کے مرکزی کردار کی کامیاب اور متاثر کن ادائیگی پر نتالیہ پورٹ مین کو "بہترین اداکارہ" کیلیے نامزد بھی کیا گیا ہے۔ تاہم ایک ایسی فلم جس میں مرکزیت کا فقدان ہو، آسکرز جیتنے کی حق دار ہے یا نہیں، اس سوال کا جواب جیوری کا فیصلے سننے کے بعد ہی دیا جاسکے گا۔
'دی کنگز اسپیچ'
'آسکرز' کی دوڑ میں ٹام ہوپرز کی تاریخی فلم "دی کنگز اسپیچ" بھی شامل ہےجس کی کہانی برطانوی بادشاہ جارج ششم کے گرد گھومتی ہے۔ کہانی کا اہم موضوع بادشاہ جارج کی جانب سے اپنی اس ہچکچاہٹ پر قابو پانے کی کوششیں ہیں جو انہیں جنگِ عظیم دوم کے آغاز پر برطانوی عوام کو اعتماد میں لینے کیلیے اپنے خطاب سے قبل درپیش ہے۔
فلم کو بلا شبہ ایک 'ماسٹر پیس' قرار دیا جاسکتا ہے جسے 12 مختلف شعبوں میں 'آسکرز' کیلیے نامزد کیا گیا ہے۔ ان میں کنگ جارج کا کردار ادا کرنے والے کولن فرتھ کی "بہترین اداکار" اور انہیں تقریر کی تربیت دینے والے لیونل لوگ کا کردار نبھانے والے جیفری رش کی بطور "بہترین معاون اداکار" نامزدگیاں بھی شامل ہیں۔
تاہم یہ فلم بھی اپنے ناظرین پر اس مخصوص تاثر کو چھوڑنے میں کسی حد تک ناکام قرار دی جاسکتی ہے جس کی توقع ایک آسکرز جیتنے والی فلم سے کی جاتی ہے۔
'دی سوشل نیٹ ورک'
اس سال 'آسکرز' کے امیدواروں میں ایک ذرا مختلف موضوع کی حامل فلم "دی سوشل نیٹ ورک" بھی شامل ہے۔ اس فلم میں ہدایت کار ڈیوڈ فنچر اور اسکرپٹ رائٹر ایرون سارکن نے فیس بک کے بانی مارک زوکربرگ اور ان کی کامیابیوں کی سنسنی خیز اور کسی حد تک متنازعہ داستان کو بڑی مہارت سے سنیما کے پردے پر اتارا ہے۔
زوکربرگ کا رول کرنے والے جیسی ایزن برگ کو فلم میں تنہائی پسند کمپیوٹر جینئس کے کردار کی کامیاب ادائیگی پر "بہترین اداکار" کیلیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
فلم کی کہانی اور مہارت سے تراشیدہ مکالمے ان نوجوان فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جنہیں سنیمائوں کی طرف راغب کرنا 'آسکرز' کی منتظم و مہتمم 'اکیڈمی آف موشن پکچرز اینڈ آرٹس' کی ترجیحات میں شامل ہے۔
لیکن کیا اس کے باوجود 'آسکرز' کا تاج ایک ایسی فلم کے سر سجانا درست ہوگا جس کی کہانی گوکہ زمانہ حال سے مطابقت رکھتی ہے مگر اس معیار کی حامل نہیں جس کا تقاضا ایک آسکرز انعام یافتہ فلم سے کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔
'دی فائٹر'
رواں سال 'آسکرز ' کی امیدوار ایک اور اہم فلم ڈیوڈ او رسل کی امید اور امنگ سے بھرپور "دی فائٹر" ہے جس کی روح بڑی حد تک آسکرز انعام یافتہ فلموں کے مطابق قرار دی جاسکتی ہے۔ سچی کہانی سے ماخوذ یہ فلم ایک ایسے باکسر کی داستان ہے جو اپنی راہ میں آنے والی تمام مشکلات اور مصائب پر قابو پا کر کامیابی کا سفر طے کرتا ہے۔
متاثر کن کاسٹ، ڈرامائی منظر کشی اور حقیقت کی بہترین عکاسی کرتے باکسنگ کے مناظر سے بھرپور "دی فائٹر" کو سات مختلف شعبوں میں آسکرز کیلیے نامزد کیا گیا ہے۔
فلم کا ایک حصہ ڈاکیومینٹری کے انداز میں عکس بند کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر اسکے بہترین فلم منتخب ہونے کی راہ میں مشکلات حائل ہوسکتی ہیں۔ تاہم بوسٹن کے نواحی علاقوں کی زندگی اور باکسنگ رِنگ کی حقیقت سے قریب تر عکاسی کے باوجود "دی فائٹر"، 'ان سیپشن' اور 'بلیک سوان' جیسی پرعظمت سنیماٹوگرافی اور 'دی سوشل نیٹ ورک" جیسی موجودہ وقت سے مطابقت کی حامل فلم قرار نہیں دی جاسکتی۔
شاید اس بار آسکرز کی دوڑ میں شامل کوئی بھی فلم ایسی نہیں جسے اس کی ہمہ جہتی میں مکمل قرار دیا جاسکے۔ لیکن اس کے باوجود آسکرز کا تاج کسی نہ کسی کے سر تو سجنا ہے۔ سو انتظار کرتے ہیں اتوار کی شب کا جب فلمی دنیا کے اس سب سے بڑے اعزاز کا اعلان کیا جائے گا۔ ۔ ۔