"یہ تو نوابوں کا شوق تھا جو وقت کے ساتھ عام ہوتا گیا۔ میں نے اس شہر میں ٹرام بھی چلتے دیکھی جس کا کرایہ پانچ پیسہ ہوتا تھا۔ گھوڑا گاڑی ذرا شاہی سواری سمجھی جاتی تھی تو اس کا کرایہ بارہ آنے یا روپیہ وصول کیا جاتا تھا۔ کوئی بہت دور کی سواری آجائے تو دو سے تین روپے مل جاتے تھے۔" ارسٹھ سالہ حق نواز پچھلے پچاس سالوں سے گھوڑا گاڑی چلا رہے ہیں، وہ ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے مسکراتے تو کبھی زور دار قہقہہ لگاتے۔
پہلے کراچی میں سینکڑوں گھوڑا گاڑیاں چلتی تھیں لیکن حق نواز کے مطابق اب صرف پندرہ بیس گھوڑا گاڑیاں ہی رہ گئیں ہیں جنہیں پرانے کوچوان چلاتے ہیں۔ کراچی کے علاقے صدر میں تاریخی مشنری اسکولوں کے باہر چھٹی ہونے سے پندرہ منٹ قبل ہی وہ پہنچ جاتے ہیں۔ انکے چہرے کی جھریاں جہاں انکی پر مشقت زندگی کی گواہی دے رہی ہیں وہیں انکے پاس سنانے کو کہانیاں بھی کچھ کم نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حق نواز نے بتایا کہ ایوب خان کے دور میں پولیس والے بہت تنگ کرتے تھے، چالان بھی ہوتا تھا اور گھوڑا تھانے میں بند بھی کردیا جاتا تھا۔ اس وقت چالان پانچ سے دس روپیہ ہوتا تھا۔ کمایا ہوا پیسہ گھوڑا چھڑانے میں لگ جاتا تو دل ڈرتا تھا کہ اگلا چالان جلدی نہ ہو جائے ۔جبکہ جنرل ضیاءالحق کے دور تک تو لائسنس کا معاملہ رہا لیکن اسکے بعد سے یہ جھنجھٹ ختم ہوگیا۔ جوانی میں طاقت تھی لیکن اب صرف میں اسکول کے بچوں کی سواریاں لیتا ہوں جو ساری اولڈ سٹی کی ہی ہیں، فی کس سواری آٹھ سو سے ہزار روپے ماہوار ہیں جس سے میرے کنبے کا گزارہ ہوجاتا ہے۔
حق نواز کا کہنا تھا کہ بھلے اب ترقی ہوگئی ہے، سڑکوں پر نت نئی آرام دہ گاڑیوں کا بھی راج ہے لیکن یہ سواری ایسی ہے کہ اکثر افراد تو سڑک کنارے اپنی گاڑی پارک کر کے گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ایک چکر ہی لگا دو۔ کبھی پیسوں پر بحث نہیں کرتے بلکہ خوشی سے دو سو، پانچ سو روپے دے کر چل پڑتے ہیں۔ اپنے گھوڑے جسکا نام بادل ہے اسے پیار کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ یہ بڑا وفادار اور صبر کرنے والا جانور ہے۔ اسکی یہی خوبی اور اس سے انسیت مجھے کبھی اپنا کام بدلنے نہیں دیتی۔ ان دِنوں شادی میں سجی ہوئی بگھی پر بارات کا جانا بھی ایک فیشن ہے تو ایسے میں بگھیوں کے مالک حق نواز سے انکا بادل کرائے پر لے جاتے ہیں ۔ یوں دن میں بادل کی سواری اسکول کی کہانیاں سناتے بچے تو رات میں شہزادوں کی طرح سجے دولہا راجہ ہوتے ہیں۔
دو شفٹوں میں بارہ بچے حق نواز کی گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر شہر کا نظارہ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ اس میں جانا اچھا لگتا ہے اسکول کے بھاری بستوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑتا۔
مسز احمد کے بچے روزانہ اسی گھوڑا گاڑی میں اسکول جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حق نواز کو برسوں سے جانتی ہیں تب ہی اپنے بچوں کی ذمہ داری انھوں نے ان پر ڈال رکھی ہے۔ اب اوبر اور کریم جیسی رائڈ شئر سروس کا زمانہ ہے لیکن بڑھتے کرائے اور اجنبیوں کے ساتھ بچوں کو بھیجنا انھیں پسند نہیں۔ سب سے بڑھ کر اس سواری کا یہ نخر ہ نہیں کہ آج سی این جی نہیں ہے پیٹرول مہنگا ہوگیا۔ حالات جیسے بھی ہوں، اگر اسکول کھلا ہے تو حق نواز نے وقت پر آنا ہی ہے۔