رسائی کے لنکس

امریکہ: کرونا وبا کی امدادی رقوم میں خرد برد کا انکشاف


خبر ساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کرونا وبا کے لیے مختص فنڈز میں 280 ارب ڈالرز کے خرد برد کا انکشاف ہوا ہے۔

’اے پی‘کے مطابق کرونا وبا کے دوران دی جانے والی خطیر امداد کی اس بڑی لوٹ مار میں صرف جرائم پیشہ افراد اور گروہ ہی ملوث نہیں تھے بلکہ انفرادی سطح پر بھی بہت سے لوگ شامل تھے۔

ریاست جارجیا میں ایک امریکی فوجی، ٹیکساس میں ایک غیر فعال چرچ کے پادری، میزوری میں ریاست کے ایک سابق قانون ساز اور مونٹانا میں چھتیں بنانے والے ایک کانٹریکٹرنے بھی ایسا ہی کیا۔

دھوکہ بازوں نے بے روزگاری کا چیک حاصل کرنے کے لیے مرجانے والے افراد، اور وفاقی قیدیوں کے سوشل سیکیورٹی نمبرز کا استعمال کیا۔

انہوں نے متعدد ریاستوں میں ضرورت مند افراد کو دی جانے ولی رقوم کو ہتھیا لیا۔

وفاقی قرض کے لیےدرخواست دینے والوں کو محکمۂ خزانہ کے ڈیٹا بیس میں چیک نہیں کیا گیا تھا جس کے ذریعے قرض لینے والے مشتبہ افراد کے بارے میں خبردار کیا جا سکتا تھا۔

یہ سب کارروائیاں امریکی تاریخ میں ان رقوم میں سب سے بڑی خرد بردکا باعث بنیں جن کا مقصد ایک صدی میں پیش آنے والی بدترین وبائی بیماری کا مقابلہ کرنا تھا اور معیشت کو زوال پذیر ہونے سےبچانا تھا۔

’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے تجزیے سے پتا چلا ہے کہ دھوکہ بازوں نے ممکنہ طور پر کرونا وبا کی امدادی فنڈنگ میں 280 ارب ڈالر سے زیادہ کی چوری کی ہے۔ مزید 123 ارب ڈالر ضائع یا غلط خرچ ہوئے۔ مشترکہ طور پریہ نقصان، 4.2 ٹریلین ڈالر کی اس رقم کا 10 فی صد ہے جو امریکی حکومت نے اب تک کرونا ریلیف میں دی ہے۔

اس رقم میں ایک ایسے وقت میں اضافہ یقینی ہے جب تفتیش کار ہزاروں ممکنہ اسکیموں کی چھان بین کر رہے ہیں۔

اتنی چوری کیسے ممکن ہے؟

تفتیش کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے فوری طور پر امداد پہنچانے کی کوشش میں وبائی امراض کے ابتدائی مراحل کے دوران ، کھربوں ڈالر خرچ کرنے کی بہت کم نگرانی کی اور درخواست دہندگان پر بہت کم پابندیاں عائد کیں۔

مختصراً وہ کہتے ہیں کہ بد عنوانی بہت آسان تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی اٹارنی کے دفتر میں دھوکہ دہی اور وائٹ کالر کرائم یونٹ کے سربراہ ڈین فروچر نے کہا کہ "یہاں لامتناہی رقوم کا اایک ایسا ذخیرہ تھا جس تک کوئی بھی رسائی حاصل کر سکتا تھا۔"

سابق صدر ٹرمپ 2020 کرونا وائرس ریلیف پیکیج پر دستخط کرتے ہوئے۔فوٹو اے پی
سابق صدر ٹرمپ 2020 کرونا وائرس ریلیف پیکیج پر دستخط کرتے ہوئے۔فوٹو اے پی

ڈین کا کہنا ہے کہ ’لوگوں نے یہ سوچ کر خود اپنے آپ کو دھوکہ دیا کہ ایساکرنا سماجی طور پر ایک قابلِ قبول عمل ہے، حالاں کہ یہ غیرقانونی تھا۔‘

امریکی حکومت نے 2230 سے زیادہ ملزمان پر وبا کے دوران امداد میں دھوکہ دہی کے جرائم کا الزام عائد کیا ہے اورمزید ہزاروں کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔

زیادہ تر رقم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وباکے دوران شروع کیے گئے تین بڑے امدادی پروگراموں سے لوٹی گئی ہے اور صدر بائیڈن کو وراثت میں ملی۔

یہ تینوں پروگرام چھوٹے کاروباروں اور بے روزگار کارکنوں کو وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والی معاشی بدحالی سے بچنے میں مدد دینےکے مقصد سے تشکیل دیے گئے تھے۔

یہ چوری بڑی ضرور تھی لیکن ہمیشہ اتنی گہری نہیں تھی جیسی کہ لاکھوں ڈالر کے مقدمات کے بارے میں متوجہ کرلینے والی سرخیاں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ تمام چوریاں، خواہ بڑی ہوں یاچھوٹی، ایک ایسے دور میں جعل سازی اور دھوکہ دہی کی ایک وبا کی عکاسی کرتی ہیں جب امریکہ اسپتالوں میں گنجائش کی کمی، اسکولوں کی بندش اور کاروبار بند ہونے کے مسائل سے دوچار تھا۔

امریکہ میں صحتِ عامہ کے نگراں ادارے 'سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن' (سی ڈی سی) کے مطابق 2020 کے اوائل میں وبا شروع ہونے کے بعد امریکہ میں 11 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکہ کی سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

سیاسی طور پر منقسم کیپٹل ہل پر قانون سازوں نے وبا کو پس پشت نہیں ڈالااور اس پر شدید بحث میں مصروف ہیں کہ امدادی اخراجات کی کامیابی اور چوری کا ذمہ دار کون ہے؟

ری پبلکنز کا استدلال ہے کہ سرکاری پیسہ، دھوکہ دہی، فضول خرچی، زیاں اور افراط زر کو جنم دیتا ہے۔ ڈیموکریٹس اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ واشنگٹن کی تمام مالیاتی کوششوں نے انسانی زندگیاں، کاروبار اور ملازمتیں بچائی ہیں۔

تاہم ری پبلکن اور ڈیموکریٹس نے گزشتہ سال ایسےبلز کے ذریعے ایک مشترکہ بنیاد تلاش کی جن سے وفاقی حکومت کو دھوکہ دہی کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے مزید وقت دیا جا سکے۔

اضافی وقت وفاقی وکلائے استغاثہ کو کرونا کی وبا سے متعلق دھوکہ دہی کے معاملات کو حل کرنے میں مدد کرے گا جن میں اکثر کیسز شناخت کی چوری سے متعلق ہیں اوران میں بیرون ملک جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں۔

لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ ہر اس شخص کو پکڑ نے میں کامیاب ہو جائیں گے جس نے رقوم کے حصول کےایک آسان موقع سے فائدہ اٹھایا ہے ۔اس کے علاوہ وہ ایسےجرائم کی تفتیش میں بھی مصروف ہیں جن کا وبا کے امدادی فنڈز سے تعلق نہیں ہے۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکار اسپرلنگ نے کہا کہ مستقبل کے کسی بھی ایسے بحران کے لیے جس میں حکومت کی مداخلت کی ضرورت ہو، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے اور دھوکہ بازوں کو روکنے کے درمیان کوئی انتخاب نہیں ہونا چاہیے۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکارنے کہا کہ "آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ بحران میں مایوس کن حالات میں آپ لوگوں تک تیز رفتار امداد کی ترسیل پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ نہ سمجھیں کہ آپ فراڈ کے خلاف حفاظتی اقدامات کو کم کر کے ہی اس رفتار کو حاصل کر سکتے ہیں۔"

XS
SM
MD
LG