صبح اٹھ کر اسکول جانے کا شوق شاید سارے بچوں کو نہ ہو، مگر کون ایسا ہوگا جسے اپنے دوستوں سے ملنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کا انتظار نہ ہو۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق، کرونا وبا کے دوران تنہائی، بدلے ہوئے معمول اور غیر یقینی صورتحال نے امریکہ میں ایک تہائی بچوں کی جذباتی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
سترہ ماہ گھر میں بند اور دوستوں سے دور رہنا۔ سال کے اختتام پر گریجویشن تقریبات منسوخ ہو جانا، بغیر کسی کھیل کے صرف پڑھائی کرنا یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے وبا کے دوران امریکہ میں بچوں کی معمول کی زندگی الٹ کر رکھ دی۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے چلڈرن ہسپتال کی نفسیات کی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ایلین میکالسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بچوں سے پوچھا جائے کہ انہیں کس کام سے خوشی ملتی ہے تو 90 فیصد یہی جواب ملتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ کھیلنا یا ان سے ملنا۔ کرونا وبا کے دوران ان کی زندگیوں کا یہ اہم جُزو ان سے چھن گیا۔
ایک حالیہ رپورٹ میں اس دریافت کے بعد کہ ان عوامل نے امریکہ میں ایک تہائی بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، امریکن پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن اور بچوں کی صحت سے متعلق دیگر اداروں نے ملک میں بچوں اور نو عمر افراد کی ذہنی صحت کے شعبے میں نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بچوں میں بے چینی، تناؤ اور ڈپریشن کی علامات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی والدین نے اپنے بچوں کے رویوں میں تبدیلی محسوس کرتے ہوئے کم سونے اور بھوک نہ لگنے کی شکایات کی ہیں جبکہ بعض والدین کے مطابق ان کے بچوں میں خوف، چڑچڑے پن اور ماں باپ کے ساتھ مستقل جڑے رہنے کی علامات دیکھی جا سکتی ہیں۔
صحت سے متعلق غیر منافع بخش ادارے کائزر فیملی فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سے سترہ سال کی عمر کے 8 فیصد بچوں میں بے چینی کے آثار پائے گئے ہیں بارہ سے سترہ سال تک کے بڑی عمر کے بچوں میں یہ تناسب بڑھ کر 13 فیصد دیکھا گیا۔
ادارے کی سینئیر پالیسی تجزیہ کار نرمیتا پنچل نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ ڈورا میکوار کو بتایا کہ کرونا وبا کے دوران بڑوں کیساتھ ساتھ بچوں کی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی، اسکولز بند ہو گئے، بچے گھروں تک محدود ہو گئے، بہت ممکن ہے کہ گھر میں مالی مسائل بھی ہوں، کسی قریبی رشتہ دار کی کرونا کی وجہ سے موت واقع ہوئی ہو اور پھر اس دوران صحت کی سہولیات تک رسائی مشکل ہو گئی تھی۔ یہ تمام وجوہات بچوں میں ذہنی مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
امریکن پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق یوں تو سال 2010 اور 2020 کے درمیان بچوں میں ذہنی امراض اور خودکشیوں کی تعداد بتدریج بڑھ ہی رہی تھی مگر کرونا وبا کے دوران یہ بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ذہنی امراض اور خودکشی کی ممکنہ کوشش کی وجہ سے لائے گئے بچوں اور نوجوانوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
امیکی ریاست میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات میری الوورڈ کے مطابق اسکول جانے والے بڑی عمر کے بچوں کا خاص طور پر بہت نقصان ہوا ہے۔ اسکولز میں آئے روز کھیل اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں جن کا نو عمر لڑکے لڑکیاں خاص طور پر انتظار کرتے ہیں۔
اسکولز دوبارہ کھلنے اور زندگی پھر سے پرانی ڈگر پر آنے میں مستقل غیر یقینی بچوں کو صدمے اور محرومی کا احساس دلاتی ہے جو بے چینی میں اضافے کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔
الوورڈ بتاتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والے نو عمر مریض یہ محسوس کرتے ہیں، جیسے ان کی زندگی رک گئی ہے جس کی وجہ سے وہ چڑچڑے پن، دکھ اور بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جہاں بچے کئی ماہ تک باہر نکلنے اور ملنے جلنے سے قاصر تھے وہیں اسکولز کھلنے پر بھی بہت سے بچوں میں بے چینی بڑھی۔ کئی کو کووڈ لگ جانے کی فکر تھی تو بعض ایک عرصہ گھر تک محدود ہونے کے بعد پھر سے سماجی رابطے بڑھانے میں مشکل کا شکار نظر آئے۔ یہ صورتحال ان بچوں میں زیادہ شدت کے ساتھ دیکھی گئیں جن میں پہلے سے ہی بے چینی یا ڈپریشن کی علامات پائی گئی تھیں۔
کچھ ماہرین نفسیات نے ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جو وبا کے دوران گھر میں بالکل تنہا رہے، کیونکہ ان کے والدین کو لازمی کارکن ہونے کی وجہ سے ملازمت پر جانا پڑتا تھا۔ ان بچوں کے پاس طویل عرصے تک کوئی بات کرنے والا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایسی صورتحال یقیناً ڈپریشن اور بے چینی کا باعث بن سکتی ہے۔
امیریکن پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت سے ذہنی صحت کی سکریننگز اور علاج کے لئے مزید فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ کم آمدنی والے طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی اس موقعے پر مدد کی جاسکے۔