پاکستان میں ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے شہری اس تجسس میں مبتلا ہیں کہ آیا ویکسین لگوانے کے نتیجے میں ان کے جسم کے اندر مطلوبہ اینٹی باڈیز بنی ہیں یا نہیں۔ جن سے بظاہر کرونا وبا سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
اس ذہنی کشمکش کو حل کرنے کے لیے یہ ویکسین شدہ افراد لیبارٹریز سے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کرا رہے ہیں اور ان رپورٹس میں تشخیص کی جانے والی اینٹی باڈیز کے ذریعے لگنے والی ویکسین کی افادیت کا تعین کر رہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کسی شخص میں کرونا ویکسین لگوانے کے بعد اینٹی باڈیز نہیں بنیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ویکسین نے جسم میں داخل ہو کر قوت مدافعت کو وبا کے خلاف تقویت فراہم نہیں کی۔
اینٹی باڈیز ہوتی کیا ہیں؟
لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے منسلک اور پلازما تھیراپی کے سربراہ ڈاکٹر فریدون جاوید کا کہنا ہے کہ اینٹی باڈیز ایک قسم کا اسمارٹ بم ہوتی ہیں اور یہ جس وائرس کے خلاف بنی ہوتی ہے اس کو یہ اینٹی باڈیز ڈھونڈ لیتی ہیں اور اس (وائرس) کے ساتھ چپک جاتی ہیں۔
ڈاکٹر فریدون کے مطابق یہ اینٹی باڈیز جس چیز سے چپکی ہوتی ہیں اس کو ہمارا قوتِ مدافعت کا نظام تلف کر دیتا ہے۔
ان کے بقول آسان الفاظ میں اینٹی باڈیز جسم میں وائرس کی تشخیص کرتی ہیں اور ہماری قوتِ مدافعت اس تشخیص شدہ وائرس کو تلف کر دیتی ہیں۔
اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیوں کرایا جاتا ہے؟
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ فرانزک سائنسز اور کرونا ٹیسٹنگ لیبارٹری کے سربراہ ڈاکٹر اللہ رکھا کا کہنا ہے کہ وبا سے متاثر ہونے والے کسی شخص کا اینٹی باڈیز ٹیسٹ تو کرایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی کو کرونا ویکسین لگی ہوئی ہو اور وہ یہ سمجھے کہ اسی اینٹی باڈیز ٹیسٹ کے ذریعے کرونا ویکسین کی بدولت بننے والی اینٹی باڈیز کی تشخیص ہو سکتی ہے، تو ایسا نہیں ہے۔
اینٹی باڈیز ٹیسٹ کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے؟
ڈاکٹر اللہ رکھا کے مطابق متعلقہ وائرس کی تشخیص کے لیے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس کے نتائج کو اس کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم ان کے بقول کرونا وائرس کے معاملے میں ہم نے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کو حفاظتی طور پر لینا شروع کر دیا ہے کہ اگر ہمارے جسم میں اینٹی باڈیز بنی ہوئی ہیں تو ہم ویکسین نہ لگوانے والے شخص کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
ڈاکٹر فریدون کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص میں ویکسین لگوانے کے بعد اینٹی باڈیز نہیں بنتیں تو ممکن ہے کہ اس مذکورہ شخص میں میموری سیلز بن رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص میں میموری سیلز بن گئے ہیں تو وہ شخص بھی کسی ویکسین نہ لگوانے والے شخص کی نسبت بڑی تیزی سے کرونا وائرس کو شکست دے سکے گا۔
اینٹی باڈیز کی مقدار اور ان کی افادیت
پاکستان میں ان دنوں بہت سے لوگ اینٹی باڈیز ٹیسٹ کرانے کے بعد رپورٹس میں اینٹی باڈیز کی مقدار کی بنیاد پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ وبا کے خلاف کتنے محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر اللہ رکھا کے مطابق نہ تو اینٹی باڈیز کی تشخیص سے اور نہ ہی اس کی مقدار سے ویکسین لگوانے والے شخص کے محفوظ ہونے کا تعلق ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو شخص کرونا وبا سے متاثر ہوا تھا وہ تو اپنا اینٹی باڈیز ٹیسٹ کرا سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے علاج کے لیے اس کا معالج اسے اینٹی باڈیز ٹیسٹ تجویز بھی کرے۔
تاہم ڈاکٹر اللہ رکھا نے کہا جو شخص ویکسین لگوانے کے بعد اینٹی باڈیز ٹیسٹ کرانا چاہ رہا ہے تو ان دونوں کیسز میں فرق ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر فریدون کے مطابق جن لوگوں نے ویکسین لگوائی ہے اور ان میں بی سیلز اور ٹی سیلز میموری والے بن گئے ہیں۔ ان کے بقول ممکن ہے کہ یہ (میموری سیلز) موجود ہوں اور لوگوں کو وبا کے خلاف تحفظ فراہم کر رہے ہوں لیکن ان کی تشخیص اس طرح سے نہ ہو پا رہی ہو۔
تحفظ فراہم کرنے والے سیلز کی تشخیص کیسے ممکن؟
ڈاکٹر اللہ رکھا کا ویکسین لگوانے سے جسم میں تحفظ فراہم کرنے والے سیلز کی تشخیص سے متعلق کہنا تھا کہ اس بارے میں مختلف ممالک میں تحقیق جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے بعد ایسے طریقے موجود ہوں گے جن سے ہم ویکسین لگنے کے نتیجے میں بننے والی مخصوص اینٹی باڈیز کی تشخیص کر سکیں گے۔