انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایشز سیریز کا چوتھا میچ مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گراؤنڈ میں جاری ہے۔ میچ کے لیے انگلش ٹیم میں فاسٹ بالر جیمز اینڈرسن کی واپسی ہوئی ہے جو اپنے کریئر کا 182واں ٹیسٹ کھیل رہے ہیں۔
جیمز اینڈرسن کو ٹیسٹ کرکٹ میں سات سو شکار کرنے کے لیے مزید 12 وکٹوں کی ضرورت ہے۔
اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 700 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے پہلے فاسٹ بالر بن جائیں گے۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جیمز اینڈرسن کے اس شان دار کریئر میں ان کی محنت، لگن اور ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی فاسٹ بالر کا بھی ہاتھ ہے جس نے انہیں ایک وقت میں بہت متاثر کیا تھا۔
یہ فاسٹ بالر کوئی اور نہیں، پاکستان کے محمد آصف ہیں جن کا کریئر 2010 کے دورہ انگلینڈ پر اسپاٹ فکسنگ الزامات کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔ لیکن پابندی سے قبل وہ جیمز اینڈرسن کو اپنی بالنگ سے بہت کچھ سکھا گئے جس کا انہوں نے اپنی آپ بیتی 'جمی' میں ذکر کیا ہے۔
اپنی سوانح حیات میں جیمز اینڈرسن نے انکشاف کیا کہ محمد آصف کو دیکھ کر انہوں نے ایک ایسی گیند سیکھی جس کو انہوں نے اپنے ہتھیار میں شامل بھی کیا اور جسے استعمال کر کے انہیں آگے جا کر وکٹیں بھی ملیں۔
ان کا اشارہ پاکستانی فاسٹ بالر کی اس گیند کی طرف تھا جس میں بال سیم پر پڑنے کے بعد اندر یا باہر کی طرف جاتی ہے۔
بقول اینڈرسن، انہیں افسوس ہے کہ محمد آصف دوبارہ پاکستان کے لیے نہیں کھیل سکیں گے۔ لیکن وہ خوش ہیں کہ آصف کو بالنگ کرتا دیکھ کر ان کو جو سیکھنا تھا، وہ سیکھ لیا۔
اس موقع پر انہوں نے بھارتی پیسر ظہیر خان کا بھی ذکر کیا جن کے بال کو چھپانے کے اسٹائل نے اینڈرسن کو کافی متاثر کیا اور جسے آگے جا کر انہوں نے اپنایا۔
اسی باب کے آغاز میں انہوں نے 2010 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے پیس اٹیک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح محمد آصف اور محمد عامر بالنگ کر رہے تھے اسے سمجھنے میں انگلش بلے بازوں کو مشکل پیش آ رہی تھی۔
آگے جاکر کر انہوں نے اس ٹیسٹ میچ کا بھی تذکرہ کیا جس میں 'نیوز آف دی ورلڈ' کا وہ اسٹنگ آپریشن سامنے آیا جس نے کپتان سلمان بٹ کے ساتھ ساتھ محمد آصف اور محمد عامر کے کرکٹ کریئر کو بریک لگا دی۔
ان کے بقول ٹیسٹ سیریز کے آخری دن جب پاکستانی بالرز کی کپتان سلمان بٹ اور ان کے ایجنٹ مظہر مجید کے کہنے پر جان بوجھ کر نو بال پھینکنے کی خبر سامنے آئی تو ان سمیت کسی کو یقین نہیں آیا۔
اسی لیے جب چوتھے اور آخری ٹیسٹ میں انگلش بالرز نے پاکستانی بلے بازوں کو آؤٹ کیا تو ساتھیوں نے اس کا روایتی انداز میں جشن نہیں منایا، نہ ہی شائقین کی جانب سے کسی قسم کے جوش و ولولے کا مظاہرہ کیا گیا۔
جیمز اینڈرسن نے اس کتاب میں نہ صرف ٹیسٹ سیریز کے درمیان ہونے والی بدمزگی پر بات کی بلکہ ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں ہونے والے تنازع پر بھی اپنی رائے دی۔
ان کے بقول اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگنے والے تینوں کھلاڑیوں کا ون ڈے سیریز سے باہر ہونا خوش آئند تھا، لیکن ایسے میں پی سی بی چیئرمین کے بیان نے بدمزگی پیدا کر دی۔
ان کا اشارہ سیریز کے تیسرے میچ کے بعد ہونے والے اعجاز بٹ کے بیان پر تھا جس میں اعجاز بٹ نے اپنے کرکٹرز کو بے قصور قرار دیتے ہوئے انگلش کرکٹرز پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے میچ ہارنے کے لیے پیسے لیے۔
اعجاز بٹ کے بیان پر انگلش کرکٹ بورڈ کا سخت ردِعمل سامنے آیا جس میں انہیں دو آپشن دیے گئے تھے یا تو وہ اپنا بیان واپس لیں یا پھر قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہو جائیں۔ اعجاز بٹ نے الزام لگانے کے 10 دن بعد اس پر معافی مانگ کر جان چھڑائی۔
جیمز اینڈرسن نے کتاب میں انکشاف کیا کہ اس الزام سے وہ اور ان کے ساتھی کھلاڑی بہت پریشان ہوئے تھے۔
ان کے بقول بورڈ کے حکام سے گفت و شنید میں جہاں کئی آپشن زیرِ غور آئے وہیں سیریز کے چوتھے میچ کا بائیکاٹ بھی شامل تھا، تاہم وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چوتھے میچ میں شکست کی وجہ رات گئے تک ہونے والے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب میزبان ٹیم نے سیریز کا پانچواں اور فیصلہ کن میچ جیت کر تین دو سے فتح سمیٹی تو انہیں اپنے فیصلے پر فخر محسوس ہوا۔
پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میں شان دار پرفارمنس
ویسے تو جیمز اینڈرسن نے اس کتاب میں اپنی کئی شان دار کارکردگیوں کا ذکر کیا، لیکن ان کے نزدیک ورلڈ کپ 2003 میں ان کی پاکستان کے خلاف بالنگ ان کی سب سے یادگار پرفارمنس تھی۔
انہوں نے اس کارکردگی کو اپنی اس ہیٹ ٹرک سے بھی بڑا قرار دیا جو انہوں نے اسی سال پاکستان کے خلاف حاصل کی تھی۔
کپپ ٹاؤن میں کھیلے گئے میچ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں وہ میچ اس لیے یاد ہے کیوں کہ پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر نے اس میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی گیند پھینک کر ورلڈ ریکارڈ بنایا تھا اور وہ شکر ادا کر رہے تھے کہ ان کی بیٹنگ نہیں آئی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ فلڈ لائٹس میں گیند سوئنگ ہونے کی وجہ سے انگلش بالرز نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے لیے 274 رنز کے تعاقب کو آغاز سے ہی مشکل بنا دیا۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستان کی پہلی تین وکٹیں 17 رنز پر گریں جس میں سے محمد یوسف اور انضمام الحق جیسے مستند بلے بازوں کو انہوں نے پہلی پہلی گیند پر آؤٹ کیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس میچ میں انہوں نے دس اوورز کا ایک ہی اسپیل کیا جس میں آگے جا کر ان فارم سعید انور اور وکٹ کیپر راشد لطیف کی وکٹیں شامل تھیں، بلکہ ان کو 29 رنز کے عوض چار وکٹوں کی وجہ سے میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔
ان کے بقول یہ میچ اس لیے بھی ان کے لیے اہم تھا کیوں کہ اس میں ان کے والد، چچا، دادا اور دیگر رشتہ دار انہیں پہلی مرتبہ گراؤنڈ میں بیٹھ کر براہ راست دیکھ رہے تھے۔