"نو اور 10 مئی کی درمیانی رات صبح چار بجے مجھے گھر سے کال آئی کہ پولیس والے گھر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے اور میرے بھائی کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ اس رات پولیس والے ان کے گھر میں ایسے داخل ہوئے جیسے کسی دہشت گرد کو پکڑنے آئے ہیں، گھر کا مین گیٹ توڑ دیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔"
یہ کہنا ہے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے کے رہائشی محمد علی (فرضی نام) کا جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن ہیں۔
نو مئی کو جب لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کو مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کے بعد وہاں آگ لگائی تو اس وقت محمد علی کے بقول وہ زمان پارک میں موجود تھے جب کہ ان کے 23 سالہ بھائی مریدکے میں اپنے گھر میں موجود تھے جنہیں 16 ایم پی او کے تحت گرفتار کر لیا گیااور ان کی دو روز بعد ضمانت ہوئی۔
خیال رہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو پبلک مینٹنس آرڈر (ایم پی او) کی مختلف دفعات کے تحت حراست میں لیا گیا جب کہ بعض افراد پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ چوں کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے بعد سے وہ زیادہ تر زمان پارک میں موجود ہوتے ہیں اور اپنا موبائل نمبر بھی تبدیل کر لیا ہے۔ لہذا پولیس نے ان کے آبائی گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے بھائی کو گرفتار کیا جس کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
محمد علی کے بقول سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد عمران خان نے جب مریدکے میں جلسے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر پولیس نے اُن کے گھر ریڈ کی اور دوبارہ بھائی کو گرفتار کر لیا۔
محمد علی کا الزام ہے کہ اُن کے بھائی کو دورانِ حراست دھمکایا گیا اور کہا گیا کہ بھائی کو فوراً تھانے پیش کردو ورنہ پورے خاندان کو اُٹھا لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی کی طرف سے مریدکے کا جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا تو ان کے بھائی کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے 18 مئی کو مریدکے میں جلسہ کرنا تھا جسے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر ملتوی کر دیا گیا ہے۔
نو مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور مشتعل مظاہرین نے لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس، راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت دیگر عسکری اور سول املاک میں جلاؤ گھیراؤ کیا تھا۔
پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت نے نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے جس کے بعد سینکڑوں افراد کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔
خواتین کو بھی گرفتار کر لیا گیا'
کریک ڈاؤن کی زد میں آنے والوں میں جہاں مرد شامل ہیں تو وہیں درجنوں خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
لاہور کے علاقے گلبرگ کی رہائشی ریحانہ (فرضی نام) اور اُن کی بیٹی سعدیہ (فرضی نام) اپنے ڈرائیور کے ساتھ 10 مئی کو لبرٹی چوک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئیں۔ بعدازاں پولیس نے دونوں کو ڈرائیور سمیت حراست میں لے لیا۔
ریحانہ اور سعدیہ کے قریبی رشتے دار کے مطابق تینوں کو ایم پی او کے تحت حراست میں لیے جانے کے بعد ڈیفنس تھانے منتقل کیا گیا۔ دونوں خواتین کو دو روز بعد رہا کر دیا گیا، لیکن ڈرائیور اب تک پولیس کی حراست میں ہے۔
'گرجا چوک سے آگے گیا ہی نہیں پھر بھی بیٹے کو گرفتار کر لیا'
لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے رہائشی محمد زبیر (فرضی نام) کہتے ہیں کہ جب کور کمانڈر ہاؤس میں آگ لگی اس وقت وہ زمان پارک میں موجود تھے۔ بعدازاں وہ احتجاج میں شرکت کے لیے کورکمانڈر ہاؤس سے ایک کلو میٹر دُور گرجا چوک پہنچے لیکن ٹریفک کی بندش کی وجہ سے آگے نہ جا سکے۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ اسی رات پولیس نے ان کے گھر پر چھاپا مارا اور چوں کہ وہ گھر پر موجود نہیں تھے، اس لیے پولیس والے ان کے 27 سالہ بیٹے کو گرفتار کر کے لے گئے جو اب بھی پولیس کی حراست میں ہے۔
مشتعل افراد کی شناخت اور گرفتاری
نو مئی کو ہونے والے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے پولیس جیو فینسنگ، لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت نصب کردہ کیمروں اور نادرا کے ذریعے مشتبہ افراد کو حراست میں لے رہی ہے۔
لاہور سیف سٹی اتھارٹی کے ڈی آئی جی محمد کامران خان نے تصدیق کی کہ نو مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنان براستہ جیل روڈ، شیر پاؤ پل اور گرجا چوک سے ہوتے ہوئے کور کمانڈر ہاؤس پہنچے۔
محمد کامران کا کہنا تھا کہ سیف سٹی نے گرجا چوک تک کی سی سی ٹی وی فوٹیجز تحقیقاتی ایجنسیوں کو فراہم کر دی ہیں جب کہ ان کے بقول کور کمانڈر ہاؤس کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمراز کینٹونمنٹ بورڈ کے تھے۔
پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق اس سلسلے میں اب تک پانچ ہزار سے زائد گرفتاریاں کی جا چکی ہیں جب کہ عمران خان نے 18 مئی کو دعویٰ کیا ہے کہ ان کے7500 کارکن گرفتار کیے گئے ہیں۔
جیو فینسنگ
سابق آئی جی پولیس افضل شگری کہتے ہیں کہ پولیس جیو فینسنگ کے ذریعے پتا لگاتی ہے کہ جائے وقوع پر کون کون سے موبائل صارف موجود تھے جس کے بعد پتا لگایا جاتا ہے کہ وہاں موجود موبائل صارفین واقعے کے بعد کس کس سے رابطے میں تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر پولیس مشتبہ افراد کو حراست میں لیتی ہے۔
افضل شگری کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد کے نمبرز کو ٹریس کر کے انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے موبائل پر موجود ڈیٹا پر تفتیش کی جاتی ہے۔
'موبائل لاک کر کے مسلسل نگرانی کی جاتی ہے'
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفی باجوہ کا کہنا ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمروں کے ذریعے جائے وقوعہ کی طرف جانے والی گاڑیوں کی چھان بین کی جاتی ہے جس کے بعد مشتبہ گاڑیوں کی نشان دہی کر کے پولیس کارروائی کرتی ہے۔
سجاد مصطفی کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو کہ مشتبہ موبائل نمبر کو لاک کر لیتی ہے یعنی کہ اس مشتبہ موبائل نمبر کو ریڈار پر لے کر اس کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے جس کے بعد پولیس گرفتاری کرتی ہے۔