چین کے اعلیٰ سفارت کار نے جی 20 کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کی طالبان حکومت پر معاشی پابندیاں ختم کرنے پر زور دیا ہے، تاکہ افغانستان خود کو درپیش انسانی بحران اور معاشی بدحالی کے مسئلے سے نمٹ سکے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے احاطے سے باہر منعقدہ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، چین کے وزیر خارجہ وینگ یی نے کہا کہ جی 20 ممالک کے ارکان کو بین الاقوامی معاشی تعاون کے عالمی پلیٹ فارم کی حیثیت سے اس جنوبی ایشیائی ملک کی تعمیر میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
وینگ کے بقول، ''افغانستان کے خلاف عائد تمام قسم کی یک طرفہ تعزیرات یا پابندیاں ہٹائی جانی چاہئیں۔ ''
گزشتہ ماہ اسلام پسند طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے افغانستان کے لیے مخصوص اربوں ڈالر منجمد کر دیے تھے، جب کہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے دونوں ہی نے ترقیاتی رقوم تک طالبان کی رسائی روک دی ہے۔
یہ اجلاس افغانستان کی صورت حال پر غور کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔
وینگ نے کانفرنس کو بتایا کہ ''افغانستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اس کا قومی اثاثہ ہیں، جو عوام کی ملکیت ہونی چاہیے اور انھیں استعمال میں لایا جانا چاہیے، بجائے اس بات کے کہ انھیں افغانستان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے استعمال کیا جائے''۔
امریکہ اور دیگر ملکوں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جامع حکومت تشکیل دیں جو انسانی حقوق کی حرمت یقینی بنائے اور سخت اسلامی قوانین پر مبنی حکمرانی کی جانب پلٹنے سے احتراز کریں، جس کے بعد ہی اس کے ساتھ براہ راست بات چیت یا سفارتی طور پر اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
وینگ نے کہا کہ ''چین جی 20 ارکان پر زور دیتا ہے کہ عملی اقدامات کے لیے آگے بڑھیں تاکہ رقوم کی شدید کمی کے معاملے کو حل کرنے کے لیے افغانستان کی مدد کی جا سکے''۔
انھوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھنے، روزگار کمانے اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جاری رکھنے میں مدد دی جائے۔
وینگ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغان شہریوں کی فوری ضروریات پوری کرنے کے پیش نظر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ چین نے افغانستان کو تقریباً تین کروڑ 10 لاکھ ڈالر مالیت کی اشیا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں کووڈ ویکسین کی خوراکوں کا عطیہ بھی شامل ہے۔