انسانی حقوق کی ایک علمبردار ایک بڑی تنظیم، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع ’میمو‘ کا تفصیلی جائزہ لیے بغیر اس معاملے کی تحقیقات کو غیر منصفانہ اقدام قرار دیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے منگل کو جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو باضابطہ قانونی کارروائی سمیت دیگر بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا خواہ الزامات کی نوعیت کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ ’’میمو کے مندرجات کا جائزہ لیے بغیر اور انفرادی وضاحتوں پر تکیہ کر کے معاملے کی تحقیقات کرنا منصفانہ اقدام نہیں۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں کے تقریباً 100 اراکین نے میمو کے معاملے سے متعلق پیدا ہونے والی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا اور مشاورت کے اس عمل میں اس بات پر تمام شرکاء متفق تھے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہیئے۔
’’ملک میں پارلیمان کی اعلیٰ اتھارٹی کا اصول ناقابل منسوخ ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے۔ چنانچہ پارلیمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کی نسبت اس وقت اپنے حقوق کا زیادہ پر زور دعویٰ کرے۔ (اجلاس نے) ناصرف انتظامیہ بلکہ انفرادی اور ادارہ جاتی تعصبات سے بھی عدلیہ کی آزادی کے اصول کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔‘‘
’میمو‘ کی حقیقت اور اس کا مقصد جاننے کے لیے سپریم کورٹ کا تشکیل کردہ ایک عدالتی کمیشن ان دنوں اپنی تحقیقات کر رہا ہے۔
متنازع میمو کے مبینہ مرکزی کردار حسین حقانی نے پیر کو کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کا اس معاملے سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے اور انھیں ایک سازش کے تحت اس میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
ایک اخباری مضمون کے ذریعے میمو کا انکشاف کرنے والے امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل نے کمیشن کو بتایا تھا کہ اگر ان کے موکل کو ویزہ جاری کیا گیا تو وہ 16 جنوری کو اسلام آباد پہنچ کر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔
کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستانی فوج منصور اعجاز کو تحفظ فراہم کرے۔