|
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک گروپ نے بتایا ہے کہ بدھ کے روز صوبہ طرطوس میں ایک جھڑپ کے دوران نو افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب سیکیورٹی فورسز نے بشار الاسد دور کے ایک عہدے دار کو، جس کا تعلق ایک بدنام زمانہ جیل سے تھا، گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
"سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس" نے کہا ہے کہ شام کے حکام کی جنرل سیکیورٹی فورس کے چھ ارکان اس وقت مارے گئے جب وہ سیدنایا جیل کے جرائم کے ذمہ دار ایک عہدے دار کو حراست میں لینے کے لیے اس کے قصبے میں گئے۔
یہ واقعہ طرطوس کے علاقے خربہ المعزہ میں پیش آیا۔ اس جھرپ میں دیگر تین مسلح افراد بھی ہلاک ہوئے۔
شام کی جیلوں کے دروازے باغی گروپ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں اسد حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد کھولے گئے تھے۔
سن 2011 میں اسد اقتدار کے خلاف شروع ہونے والی عوامی بغاوت کے بعد حکومتی تشدد میں گزشتہ 13 سال کے دوران پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور لاکھوں افراد اپنی جانیں بچانے کے لیے دوسرے ملکوں میں فرار ہو گئے۔ جب کہ لاکھوں ملک کے اندر ہی بے گھر ہو گئے۔
ایچ ٹی ایس کے ایک اہل کار نے طرطوس میں سیکیورٹی فورسز اور سابق حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔
طرطوس سابق صدر اسد کے حامی علوی گروپ کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔
اہل کار نے جھڑپوں کی وجہ بتانے سے گریز کیا اور اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی کیونکہ اسے میڈیا پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس جھڑپ میں سیکیورٹی فورسز کے کئی اہل کار مارے گئے۔
سیریئن آبزرویٹری نے بتایا کہ مطلوبہ شخص سابق حکومتی فورسز کا ایک افسر تھا، جس کے پاس فوج کے محکمہ انصاف میں ڈائریکٹر کا عہدہ تھا اور وہ فیلڈ کورٹ کا سربراہ تھا اور اس نے ہزاروں قیدیوں کے خلاف سزائے موت اور من مانے فیصلے جاری کیے تھے۔
آبزرویٹری نےعہدے دار کا نام نہیں بتایا۔
برطانیہ میں قائم آبزرویٹری نے کہا کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب علاقے کے ایک رہائشی نے اپنے گھر کی تلاشی دینے سے انکار کر دیا۔
عہدے دار کے بھائی اور دوسرے مسلح افراد نے سیکیورٹی اہل کاروں کا راستہ روکا اور ان کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔
آبزرویڑی کے مطابق فورسز نے اس آبادی سے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم