پاکستان میں حقوق انسانی کی ایک صف اول کی تنظیم نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی برخواستگی کو ملک کے لیے ’’افسوسناک اور دکھ‘‘ کی بات قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوری روایات کو ہمیشہ ہی کچلا جاتا رہا ہے اور انھیں کبھی پروان چڑھنے کی مہلت ہی نہیں دی گئی۔
”شاید سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے۔ ایک منتخب وزیرِ اعظم کی اس کے عہدے سے علیحدگی … خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں … جہاں جمہوری روایات پہلے ہی بہت کمزور ہیں، ایک انتہائی افسوس ناک بات ہے اور یقیناً ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی طرح بھی خوشی یا اطمینان کا اظہار کیا جائے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ تادیبی اقدامات کی بجائے پاکستان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جمہوری اداروں کو مناسب مشوروں اور رہنمائی سے مضبوط کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
”یہ اُصول کہ جج صاحبان کو غیر معمولی طور پر محتاط ہونا چاہیئے … جب وہ ایسے مقدمات کا فیصلہ کر رہے ہوں جو ان کی اپنی عزت یا توہین کے متعلق ہیں، اس سے کہیں زیادہ عزت و احترام کا متقاضی ہے جتنا کہ بادی النظر میں اسے ملا۔ یہ فیصلہ توہین عدالت کے تصور اور سزا کی حد اور وسعت کے بارے میں بھی سوالات کو جنم دے گا۔‘‘
ایچ آر سی پی نے کہا کہ اس نازک وقت میں جمہوریت کو درپیش خطرات زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم کا تقاضا کرتے ہیں، اور اگر سیاسی جماعتیں یوں ہی معمولی مفادات کے لیے لڑتی رہیں تو ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے خطرات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔
’’بالآخر اس بات کا فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے کہ ان پر کس نے حکومت کرنی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ ماحول کو اس حد تک خراب نہیں کیا جائے گا کہ عوام کی انتخابی ترجیحات کا تعین کرنا ہی ناممکن ہو جائے۔‘‘
سپریم کورٹ نے 26 اپریل کو وزیر اعظم گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل نا کرنے پر منگل کو اپنے ایک فیصلے میں انھیں نا اہل قرار دے دیا تھا۔