انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں صحافیوں کو در پیش مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ ایک جنگ زدہ علاقے کی طرح سلوک کیا ہے۔ صحافیوں کے لیے اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ جیسے ایک طرف سمندر ہو اور دوسری طرف بہاڑ۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کی تعداد اگرچہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن کم تعداد کے باوجود ان کو اکثر و بیشتر مسلح تنظیموں یا ریاستی اداروں کی مرضی کی خبریں چلانے کے لیے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
صورت حال سے تنگ آکر کچھ صحافی شعبے کو ترک کر چکے ہیں جبکہ بعض صحافی اپنے رہائشی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
ایچ آر سی پی کے سینئر رکن آئی اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ کئی سال سے صحافیوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان سے واقعات کی درست اور مکمل رپورٹنگ ناممکن ہوگئی ہے۔ کسی بھی واقعے یا معاملے پر حکومت کہتی ہے اِسے ایسے رپورٹ کرو جبکہ دیگر عناصر کہتے ہیں کہ اس طرح سے رپورٹ کرو۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں حکومتیں بھی تو کئی ہیں۔ نظر نہ آنے والی حکومتوں کا تو پتہ ہی نہیں ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان سے سچ نکلنے نہ دیا جائے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے بارے میں صوبے اور ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔
آئی اے رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ان وجوہات کی بنیاد پر بلوچستان کی صحیح خبریں نشر نہیں کی جا رہیں جبکہ پاکستان کا قومی میڈیا بھی صوبے سے ایسا سلوک کر رہا ہے جیسے حکومت کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں اب بھی ایسے اضلاع ہیں جو عام شہریوں کے لیے 'نوگو ایریاز' ہیں۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے کی انسانی حقوق کمیشن کے ارکان کو اب بھی اجازت نہیں دی جارہی۔
پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں صحافیوں کی دو تنظیموں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (بی یو جے) اور کوئٹہ یونین آف جرنلسٹس (کیو یو جے) کا دائر کار بھی صرف صوبائی دارالحکومت تک محدود ہی ہے۔
یہ دونوں تنظیمیں مبینہ طور پر صوبے کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو رکن نہیں بناتیں جبکہ دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافی زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے بقول چھوٹے شہروں میں کام کرنے والے 99 فی صد صحافیوں کو ان کے متعلقہ ادارے تنخواہ یا دیگر اخراجات ادا نہیں کرتے۔
بلوچستان کی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ صوبے میں کئی حکومتوں کے ہونے کے دعوے میں کوئی صداقت نہیں۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔
ان کے بقول موجودہ حکومت کے صحافیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ کوئی ایک صحافی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ بتائے کہ اُنہیں کبھی حکومت سے کوئی مسئلہ ہوا ہو۔
صحافیوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں 2007 سے اگست 2019 تک 36 صحافی مارے جا چکے ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق صوبے کے دور دراز علاقوں کے کئی صحافی اپنا علاقہ چھوڑ کر زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے شہر میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ صوبے میں بعض پریس کلب مسلح تنظیموں اور حکومت کی دھمکیوں کے باعث کچھ عرصے کے لیے بند بھی کئے گئے تھے جبکہ صورت حال میں اب بھی زیادہ بہتری نہیں آئی۔