رسائی کے لنکس

خلا پر پہلی تھری ڈی فلم


خلا پر پہلی تھری ڈی فلم
خلا پر پہلی تھری ڈی فلم

گذشتہ سال خلائی دوربین ہبل کی مرمت اور اس میں نئے آلات کی تنصیب کے بعد خلا کی گہرائیوں کی ایسی تصویریں اتاری گئیں جن سے کائنات کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ زمین سے320 میل کی بلندی پر چکر لگانے والی خلائی دور بین ہبل کی مرمت کرنے والے سات خلابازوں کی کوششوں کو ایک تھری ڈی آئی میکس کیمرے کے ذریعے فلم بند کیا گیاتھا۔

خلائی دور بین ہبل کے ذریعے گذشتہ 20 سال سے کائنات کے بارے میں تحقیق کی جارہی ہے۔ اس دوربین کے ذریعے کہکشاؤں کی حیران کن تصاویر سامنے آچکی ہیں۔

ڈاکٹر ایڈ وائلر، ناسا میں سائنس کے شعبے کے ایک انتظامی عہدے دار ہیں۔ انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس ساری مدت کے دوران خلائی دوربین ہبل مجموعی طورپر زمین کے گرد چار یا پانچ ارب میل کا سفر کرچکی ہے۔

ان کا کہناتھا کہ کسی بھی اور دور بین کی نسبت ہبل نے ماضی کا زیادہ گہرا جائزہ لینے میں ماہرین کی مدد کی ہے۔ہماری کائنات تقریباً 13 ارب 80 کروڑ سال پرانی ہے اور یہ بگ بنگ کے تقریباً 60 کروڑ سال کے بعد وجود میں آئی تھی۔

وائلر کہتے ہیں کہ ہبل کے ذریعے خلا کا جتنا زیادہ گہرائی میں جاکر مشاہدہ کیا گیا ہے، اس سے کائنات کی ابتدا اور ارتقا کے بارے میں اتنی ہی زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہبل ، اس روشنی کا مشاہدہ کررہی ہے جس نے اربوں سال قبل کائنات کااپنا سفر شروع کیاتھا۔

لیکن اب ہبل عمررسیدہ ہورہی ہے اور 2014 ء میں اس سے کام لینا ترک کردیا جائے گا۔

ہبل کے خلا میں لانچ ہونے کے بعد سے اب تک خلاباز اس کی مرمت اور اپ گریڈیشن کے لیے پانچ مرتبہ وہاں جاچکے ہیں۔ اس سلسلے کی آخری اور حتمی مہم کے دوران 2009ء میں اس میں آئی میکس تھری ڈی کیمرہ نصب کیا گیاتھا۔جب خلابازوں نے ہبل کی مرمت کی تو اس دوران شٹل میں موجود ایک خلاباز نے اس پورے عمل کو سات سو پونڈ وزنی ایک آئی میکس کیمرے کے ذریعے فلم بند کیا تھا۔

یہ فلم بندی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہبل اور خلاباز ہر 90 منٹ کے بعد زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کررہے تھے اور اس دوران ہر 45 منٹ کے بعد انہیں یا تو طلوع آفتاب یا پھر غروب آفتاب کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔اس مشن کے ایک اسپیشلسٹ مائیکل میسی مینو کا کہنا ہے کہ روشنی میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی عملے کےارکان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود اور عملے کے باقی ارکان اور فلم سازوں نے تھری ڈی عینکوں کے ساتھ فلم کے افتتاحی شو میں شرکت کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ خلا میں سب سے روشن چیز سورج ہے۔ اور جب آپ زمین کے تاریک حصے میں داخل ہوتے ہیں جو واقعی بہت تاریک ہے اور آپ کے پاس روشنی کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے اگر روشنی کی مقدار مناسب ہے اور آپ کے پاس تصویر کھینچنے کا وقت ہو تو آپ تصویر کھینچتے ہیں۔

مشن کے ایک اور اسپیشلسٹ جان گرنزفیلڈ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ دوربین کی مرمتوں کا بھی کام تھا مثلاً بڑے بڑے خلائی دستانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پیچ کسوں کو حرکت دینا، سرکٹ بورڈ پر کام کرنا ، چیزوں کو تبدیل کرنا اور پھر انہیں اپنی جگہوں پر واپس رکھنا ۔ یہ مرمت کچھ اسی نوعیت کی تھی۔

چنانچہ ناظرین ،فلم میں ناظرین خلااور زمین کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح خلابازوں نے اپنی خلاچہل قدمیوں کے دوران انہیں دیکھاتھا۔

مائیکل میسی مینو کاکہناہے کہ جنت کچھ اسی طرح کی ہوگی، اس بلند مقام سے زمین جس طرح کی دکھائی دیتی ہے، اس کا اصل حسن بیان کرنے کے لیے ہمارے پر کوئی الفاظ نہیں ہیں۔

ہبل کے ذریعے کائنات کی گہرائیوں کی جو تصویریں اتاری گئی ہیں، انہیں اس فلم میں تھری ڈی میں پیش کیاگیا ہے۔فلم ساز ٹونی مائیرزکہتے ہیں کہ آئی میکس ٹیکنالوجی کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک تھری ڈی فلم ہے لیکن ہبل دور بین، تھری ڈی میں تصویریں نہیں کھینچتی۔ اور ہمیں ایسا کرنا ہوگا۔

خلائی امور کے ماہر فرینک سمرز کہتے ہیں کہ تھری ڈی تصویروں کے لیے انہیں سائنسی ڈیٹا سے مدد حاصل کرنا پڑی۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے واقعی سائنس کی مدد درکار ہے۔ہمارے پاس سائنس دانوں کی ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو ہمیں اس بارے میں سائنسی ڈیٹا کی فراہمی میں مدد دیتے کہ یہ تصویریں اور یہ ماڈلز کس طرح کے دکھائی دینی چاہیں۔

کینیڈا کے فلم سازگرائم فرگوسن نے لگ بھگ 40 سال قبل اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ مل کرآئی میکس ٹیکنالوجی ایجاد کی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ جلد ہی ہر شخص کے لیونگ روم یا ہر گھر کے تھیٹر میں ایک آئی میکس موجود ہوگا۔آپ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے دوسرے سیاروں کی سیر کرسکیں گے۔

آئی میکس تھری ڈی میں ہبل مشن کے تجربے کے پیش نظر مسٹر فوگوسن کی پیش گوئی ممکن دکھائی دیتی ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک شاندار فلم ہے۔



XS
SM
MD
LG