آپ کے لیے یہ بات یقیناً باعث حیرت ہو گی کہ ڈی این اے کی سطح پر انسان اور کیلا ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔
انسان اور کیلوں کے درخت عمومی طور پر تقریباً 60 فیصد ایک جیسے ہیں۔ بلکہ ہم مرغیوں سے بھی بہت ملتے ہیں اور ہمارا ڈی این اے تقریباً 75 فی صد تک مرغیوں جیسا ہے۔ لیکن ہمارے سب سے قریبی رشتے دار چمپینزی نسل کے بندر ہیں اور ان کا 98 فی صد سے زیادہ ڈی این اے ہمارے ڈی این اے سے ملتا ہے۔
واشنگٹن کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں ایک حالیہ نمائش میں اسی طرح کے بہت سے دل چسپ حقائق کو سامنے لایا گیا ہے۔ عجائب گھر میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری نے اپنی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر اس دل چسپ نمائش کا اہتمام کیا ہے جسے بڑی تعداد میں سیاح دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
نمائش دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ایک ’ٹائم ٹنل‘ میں داخل ہوتے ہیں جس میں ابتدائی دور اور جدید عہد کے انسانوں کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ اس حصے میں مختلف ادوار سےاکٹھے کیے گئے 76 انسانی ڈھانچے رکھے گئے ہیں جن کا تعلق چھ براعظموں سے ہے۔
میوزیم کے منتظم رک پاٹس کا کہنا ہے کہ انسانی شجرہٴ نسب کی ان میں سے کوئی نسل دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اور اس کرہٴ ارض پر باقی رہ جانے والی واحد انسانی نسل ہماری ہے۔
انسانی ارتقا کے مختلف مراحل کو بیان کرنے کے لیے 300 باقیات اور دوسری چیزیں نمائش میں رکھی گئی ہیں۔ مثلاً جب انسان اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا ہوا، جب انسانی دماغ کی افزائش شروع ہوئی، جب سادہ طرز زندگی میں معاشرتی رنگ داخل ہونا شروع ہوئے،اور پھر جب انسان نے قوتِ گویائی سے کام لینا شروع کیا۔
نمائش میں 28 ہزار سال قدیم دو انسانی ڈھانچے بھی رکھے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک پہلا یورپ کا جدید انسانی عہد کا ڈھانچہ ہے جب کہ دوسرا نی اینڈر ٹال (Neanderthal) کا ڈھانچا ہے، یہ وہ قدیم انسانی نسل ہے جو تقریباً 30 ہزار سال پہلے دنیا سے مٹ گئی تھی۔ یہ دونوں مجسمے پیرس کے ایک عجائب گھر سے خصوصی طور پر نمائش کے لیے یہاں لائے گئے ہیں۔
اس نمائش میں ڈھانچوں، باقیات اور دیگر کئی دوسری چیزوں کی مدد سے انسانی ارتقا کی 60 لاکھ برسوں پر محیط کہانی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ منتظم رک پاٹس کہتے ہیں کہ نمائش کے ذریعے یہ دکھایا گیا ہے کہ تاریخ کے مختلف موسمی ادوار میں، مثلاً سرد، گرم اور بارشوں کے طویل دور میں انسان نے کس طرح اپنا وجود برقرار رکھا اور کس طرح اس نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالا۔
رک پاٹس کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ نمائش دیکھنے والوں کو انسانی تاریخ، ارتقائی سفر، اور قریب ترین انسانی رشتے داروں کے بارے میں بہت سے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔
یہ نمائش خاص طور پر اس سوال کا بھی جواب فراہم کرتی ہے کہ انسان کو انسان کے درجے پر فائز ہونے کے لیے کتنے کٹھن اور پر پیچ راستوں سے گزرنا پڑا۔