وزیرِاعطم عمران کے خلاف پیش کردہ حزبِ اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کو بیرونی سازش قرار دے کر مسترد کرنے کے اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آئینی ماہرین طے شدہ پارلیمانی اصولوں اور روایتوں سے انحراف قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بدھ کو ایک بیان میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
تنظیم کے مطابق اعتماد کا ووٹ لینے کے بجائے اسمبلی کو تحلیل کرکے عمران خان نے پاکستانی شہریوں کو اپنی حکومت کا انتخاب ووٹ کے ذریعے کرنے کے حق سے محروم کردیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اتوار کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسترد کر دی تھی جس کے ذریعے عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹا یا جا سکتا تھا۔
قاسم سوری نے اپنی رولنگ میں کہا کہ ملک کے آئین کے ساتھ وفاداری ہر شہری کا فرض ہے اور عدم اعتماد کی تحریک مبینہ طور پر ایک بیرونی سازش تھی اس لیے یہ تحریک مسترد کی جاتی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی اور 90 روز کے اندر عام انتخاب کا اعلان کر دیا ۔
پاکستان کی حزبِ اختلاف بیرونی سازش کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پارلیمان کے طے شدد قواعدوضوابط کے تحت پیش کی گئی جس پر ووٹنگ سے انکار کر کے ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ۔
پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا اصرار ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک اس وقت مسترد کی جب یہ نظر آ رہا تھا کہ عمران خان ایوان میں اپنی اکثریت بظاہر کھو چکے تھے۔
عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤ ں کا مؤقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے فیصلوں اور ایوان کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے اور اس معاملے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حزبِ اختلاف کا مؤقف ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین میں ایک واضح طریقۂ کار متعین ہے جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کی اجازت نہ دینا پاکستانی شہریوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کے ان حقوق سے انکار ہے جنہیں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
آئینی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کے بعد ملک کو ایک آئینی بحران کا سامنا ہے۔
'سیاسی جماعتوں کے مابین مخاصمت بڑھ سکتی ہے'
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستا ن میں قومی اسمبلی موجود نہیں اور حکومت پوری طرح فعال نہیں ہے۔
عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب میں وزیراعلیٰ موجود نہیں ہے اور نئے قائدایوان کے انتخاب کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ احمد بلال کہتے ہیں کہ اگر پنجاب اور مرکز میں سیاسی بحران جلد حل نہیں ہوتا اس بات کا خدشہ ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مخاصمت بڑھ سکتی ہے ۔
ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا معاملہ اب پاکستان کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا اسپیکر کو آئین کے تحت عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار تھا یا نہیں۔
احمد بلال توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ جلد طے کرے گی تاکہ ملک میں جاری آئینی بحران کا خاتمہ ہو سکے۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری نے ملک میں جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں قومی اسمبلی کے اندر باہر اٹھائے گئے اقدامات سے ملک میں جمہور ی حقوق پر زد پڑی ہے۔
فرزانہ باری پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے توقع کرتی ہیں کہ وہ آئین اور جمہوری روایات کی پاسدار ی کرتے ہوئے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں گی۔