ایران میں انسانی حقوق کی وکیل نسرین ستودہ کے شوہر نے بتایا ہے کہ حکام نے ان کی شریک حیات کو اس کے باوجود واپس جیل بھجوا دیا ہے کہ ڈاکٹروں نے انہیں دل کے کلینک میں معائنہ کرانے کا مشورہ دیا تھا۔
نسرین کو گزشتہ ہفتے خرابی صحت کے باعث جیل سے رخصت پر بھیج دیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کے ساتھ تہران سے ایک انٹرویو میں رضا خندن نے بتایا کہ ان کی شریک حیات نسرین ستودہ کو دن کے وقت قرچک جیل سے ایک ٹیلی فون موصول ہوا، جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ فوراً جیل میں حاضر ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ بدھ کو جیل پہنچیں اور اس طرح جیل سے ان کی رخصت اچانک ختم کردی گئی جو حکام نے انہیں اپنے علاج کے لیے سات نومبر کو دی تھی۔
جیل میں بھوک ہڑتال کی وجہ سے وہ سانس اور دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئی تھیں۔
ستودہ جون 2018 سے پابند سلاسل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی ان خواتین سرگرم کارکنوں کا دفاع کرنے پر سزا دی جا رہی ہے جنہیں ایران کے اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلے بندوں نقاب اتارنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ستودہ کو 30 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ستودہ کے شوہر کا کہنا ہے کہ جن حکام نے ان کی شریک حیات کی جیل سے رخصت کو ختم کیا، انہوں نے سرکاری ڈاکٹروں کے پینل کی تجاویز کو نظر انداز کیا ہے جنہوں نے پیر کے روز ان سے ملاقات کی تھی۔
رضا خندن نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے نسرین کو تہران میں واقع امراض دل کے مرکز میں معائنہ کروانے، جب کہ متعدی امراض کے ماہرین نے انہیں دو ہفتے گھر پر قرنطینہ میں رہنے اور ماسک لگانے کا مشورہ دیا تھا۔
وائس آف امریکہ آزاد ذرائع سے ستودہ کے لیے ڈاکٹروں کی سفارشات کی تصدیق نہیں کر سکا۔
ستودہ کے شوہر نے اس سے قبل بتایا تھا کہ سات نومبر کو جیل سے عارضی رہائی ملنے کے بعد جب نسرین کا طبی معائنہ کرایا گیا تو ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔