انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے پاکستان اور چین پر زور دیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر شادی کے لیے پاکستانی خواتین کو چین 'اسمگل' کرنے کے واقعات کا نوٹس لیں۔
اپنی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حال ہی میں ایک پاکستانی ٹی وی چینل لاہور کی رہائشی پانچ خواتین کو شادی کی غرض سے چین بھیجنے کا معاملہ سامنے لایا ہے۔ چین جانے کی منتظر ان پانچ لڑکیوں میں دو کی عمریں محض 13 برس تھیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خواتین کو چار لاکھ پاکستانی روپے فی کس کے عوض چین بھجوانا طے پایا تھا۔ جب کہ ہر ماہ 40 ہزار اور خاندان کے ایک مرد کو چین کا ویزہ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح کی خواتین کو چین میں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ ایسی بعض خواتین کو 'جنسی غلاموں' کی طرح رکھے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
'ہیومن رائٹس واچ' نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی چینل اے آروائی کے پروگرام سرعام کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے ایک پروڈیوسر آصف قریشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پروگرام میں انہوں نے اس حساس مسئلے کو اُجاگر کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں تحقیق کے دوران پتا چلا تھا کہ لاہور کے علاقے اپرمال کی ایک کوٹھی میں یہ غیرقانونی کام ہو رہا تھا ۔ جس پر انہوں نے پولیس کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کردیا تھا۔ ابتدا میں پولیس نے مقدمہ درج کرنے کی یقین دہائی بھی کرائی تھی لیکن بعد ازاں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
آصف قریشی کے مطابق ایسے معاملات کو منظرِ عام پرلانے کے باوجود ابھی بھی پاکستانی خواتین کی چین اسمگلنگ کا یہ کام جاری ہے۔
چین کو خواتین کی کمی کا سامنا ہے
اعداد و شمار کے مطابق چین کی حکومت کی 'ون چائلڈ' پالیسی کے باعث بیشتر خاندان لڑکے کی پیدائش کے خواہش مند ہوتے تھے۔ چین میں 1979ء سے 2015ء تک یہ پالیسی نافذ العمل رہی تھی جس کے باعث چینی معاشرے میں مردوں اور خواتین کے تناسب میں بہت فرق پیدا ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین کو مردوں کے مقابلے میں تین سے چار کروڑ خواتین کی کمی کا سامنا ہے۔
ان مسائل کے باعث چینی مردوں کو شادی کے لیے خواتین نہیں ملتیں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک سے خواتین کو چین لانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی طرح میانمار (برما) سے بھی سیکڑوں خواتین شادی کی غرض سے چین لائے جانے کے بعد دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان خواتین کو لایا تو دلہن بنا کر جاتا ہے لیکن انہیں مبینہ طور 'جنسی غلامی' میں رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس بارے میں کتنی آگاہی ہے؟
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی قانون دان حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ایسے واقعات ان کے علم میں بھی آئے ہیں۔ ان کے بقول یہ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے اور حکومتِ پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
حنا جیلانی کا کہنا ہے عمومی طور پر اقوامِ متحدہ میں چین پر بہت کم تنقید ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بھی چین کے ساتھ تعلقات کے باعث اس سے متعلق منفی خبروں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
حنا جیلانی کے بقول اگر پاکستان انسانی حقوق اور خواتین کے تحفظ کے معاملے پر سنجیدہ ہے تو اسے یہ معاملہ بیجنگ کے ساتھ سنجیدگی سے اُٹھانا چاہیے۔
چین اور پاکستان کا ردِ عمل
شادی کی غرض سے پاکستانی خواتین کو چین اسمگل کرنے کی رپورٹس پر چینی سفارت خانہ بھی اپنے ردِ عمل کا اظہار کرچکا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین اس معاملے پر پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
چینی سفارت خانے کے مطابق ان کے علم میں آیا ہے کہ غیر قانونی 'میچ میکر' رشتے طے کرا کر بھاری منافع کما رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل تو سامنے نہیں آیا تاہم حکمران جماعت تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شہنیلارت اس معاملے کر تشویش ناک قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام تک پہنچانے کا اعلان کر چکی ہیں۔