|
سینکڑوں شامیوں نے وسطی دمشق میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لیے مظاہرہ کیا ۔ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے پہلے اسلام پسند قیادت والے باغیوں کے اتحاد نے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
’’ ہم جمہوریت چاہتے ہیں ، کوئی مذہبی ملک نہیں‘‘،وسطی دمشق کے اموی چوک میں مظاہرین اس کے علاوہ یہ نعرےبھی لگا رہے تھے، ’’ فری، سول سیریا‘‘ اور ’’ شام کے لوگ ایک ہیں‘‘، جب کہ کچھ لوگوں نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن میں یہ نعرہ بھی شامل تھا،’’ آزاد خواتین کے بغیر کوئی قوم آزاد نہیں ہوتی۔ ‘‘
اسلام پسند گروپ ہئیت تحریر الشام ، یا ایچ ٹی ایس ،کے زیر قیادت باغیوں نے گزشتہ ہفتے اپنےشمال مغربی گڑھ سے ایک تیز پیش قدمی کرتے ہوئے ، حکومت کے کنٹرول کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے آٹھ دسمبر کو اسد حکومت کاتختہ الٹ کر دار الحکومت دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
ایچ ٹی ایس، جو بنیادی طور پر شام کی القاعدہ کی ایک شاخ ہے، اور جسے متعد د مغربی حکومتیں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہیں، ملک کی بہت سی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے بیانات میں میانہ روی اختیار کر چکی ہے۔
اس نے یکم مارچ تک ملک کو چلانے کے لیےایک عبوری قیادت مقرر کر دی ہے ۔ مظاہرین میں شامل ایک پچاس سالہ خاتون اور ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ، ماجدہ مدرس ، نے کہا، "نئے شام کی تعمیر میں خواتین اور مردوں ، دونوں کو ایک کردار ادا کرنا ہے۔"
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ خواتین کا سیاسی زندگی میں ایک بڑا کردار ہے ۔۔ ہم خواتین کے خلاف کسی بھی موقف کو نظر میں رکھیں گے اور اسےقبول نہیں کریں گے۔‘‘
اسد کےخاندان نے پچاس سال سے زیادہ عرصے میں آہنی ہاتھ سے حکومت کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو کچل دیا ۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل انتونیو گوتریس نے جمعرات کو کہا کہ اسد کے زوال کےبعد امید کی ایک چنگاری موجود ہے لیکن انہوں نے آنے والے متعدد چیلنجوں سے خبردار کیا ۔ انہوں نے کہا ،’’ مشرقِ وسطیٰ طرح طرح کی آگ کی لپیٹ میں ہے ، لیکن شام میں امید کی ایک چنگاری موجود ہے جسے بجھایا نہیں جانا چاہئیے۔ ‘‘
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم