اِن خدشات کے پیش نظر کہ داعش کے شدت پسند پیش قدمی کر رہے ہیں اور یہ کہ شدت پسند شدید جنگ و جدل کا منصوبہ بنا رہے ہیں، بیسیوں مسیحی خاندان شام کا ایک قصبہ چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں۔ یہ بات سرگرم کارکنوں نےہفتے کے روز بتائی ہے۔
اسامہ ایڈورڈ شام میں آشوریہ مسیحیوں کے انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ صداد کے وسطی مسیحی قصبے سے بھاگ کر ’سینکڑوں خاندان‘ حمص کی شہر اور دارالحکومت دمشق بھاگ نکلے ہیں۔
ایڈورڈ کے بقول، علاقے کے لوگ ڈر خوف کے ماحول سے گزر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ صداد کے ارد گرد مقیم متعدد مسیحیوں پر یہ خوف طاری ہے کہ دولت اسلامیہ کے زیر تسلط علاقے میں جو کچھ عراق میں نسلی یزیدیوں اور دیگر مسیحیوں کے ساتھ ہوا، وہی معاملہ اُن کے ساتھ روا رکھا جائے گا، یعنی یا تو بھاگ نکلیں، اسلام قبول کرلیں یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
برطانیہ میں قائم ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے قرطین کے وسطی قصبے اور ماہین کے گاؤں کے درمیان کے علاقے میں سنگین لڑائی کی اطلاع دی ہے، جو علاقہ صداد سے کچھ ہی دور واقع ہے۔
کشیدگی سے قبل، شام کی تقریباً 10 فی صد آبادی مسیحیوں پر مشتمل تھی، جو دو کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے۔