پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے تربت میں ہفتے کو قتل ہونے والی سماجی کارکن اور صحافی شاہینہ شاہین کے قتل کا مقدمہ اُن کے شوہر کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس حکام نے دعوی کیا ہے کہ شاہینہ شاہین کو زخمی حالت میں اسپتال لانے والا شخص ان کا شوہر محراب گچکی تھا جو اہلیہ کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔
پولیس کے مطابق تربت میں ایک سرکاری کوارٹر کے قریب پیش آنے والے اس واقعے کے بعد جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم رائفل کا ایک خول اور ایک کارتوس بھی ملا ہے۔
ادھر شاہینہ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ محراب اور شاہینہ اپنی ازدواجی زندگی میں خوش تھے۔ تاہم پولیس کو فوری طور پر ملزم کو گرفتار کرنا چاہیے۔
دوسری طرف تربت میں ٹیچنگ اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے ایک شخص جس نے اپنا نام ثمیر بتایا شاہینہ کو زخمی حالت میں اسپتال لایا تھا۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق شاہینہ کو سینے پر دائیں جانب تین گولیاں لگی تھیں۔
اسپتال لانے کے بعد شاہینہ پانچ منٹ تک زندہ رہیں اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔
شاہینہ شاہین کی تین بہنیں ہیں اور وہ فن مصوری سے بھی شغف رکھتی تھیں۔
شاہینہ کے ماموں احمد علی کا کہنا ہے کہ شاہینہ نے ایم اے پاس کرنے کے بعد پی ٹی وی بولان، کوئٹہ سینٹر میں بطور مارننگ شو میزبان کام شروع کیا۔ مگر بعد میں فنِ مصوری کی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے باعث پی ٹی وی چھوڑ دیا تھا۔
شاہینہ کو صحافت سے بھی لگاؤ تھا اور وہ ایک بلوچی میگزین ‘ذرگہار’ کی مدیر بھی تھیں۔
وہ بلوچستان میں خواتین کے حقوق کی بھی علمبردار تھیں۔ وہ اکثر تقاریب میں یہ کہتی تھیں کہ بلوچستان کی خواتین کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ صرف انہیں والدین کے تعاون اور مواقع کی ضرورت ہے۔
احمد علی کے بقول محراب گچکی سے شاہینہ کی شادی رواں سال جنوری میں ہوئی تھی۔
شاہینہ کے ماموں کے مطابق شاہینہ اور ان کے شوہر محراب گچکی کے درمیان بظاہر کسی قسم کا جھگڑا نہیں تھا اور دونوں اپنی ازدواجی زندگی میں خوش تھے۔
شاہینہ کے لواحقین کا مؤقف ہے کی اس مقدمے میں انہیں پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملزم کو فی الفور گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔