پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر کو لاہور ایئر پورٹ سے حراست میں لینے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
جلیلہ حیدر کے مطابق وہ برطانیہ میں 'یونیورسٹی آف سسکز' کے زیر اہتمام 'ویمن کولیشن فیمنزم' پر منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں جب امیگریشن حکام نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر انہیں طیارے میں سوار ہونے سے روک دیا۔
جلیلہ حیدر کے مطابق انہوں نے جب حکام سے روکے جانے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتیں۔
جلیلہ حیدر کے بقول "خواتین سے متعلق کانفرنس میں جا رہی تھی۔ پہلے میرے پاسپورٹ پر مہر لگا دی، لیکن بعد میں روک دیا۔ اپنے سسٹم میں میرا پاسپورٹ نمبر لگایا تو میں نے دیکھا کہ میرا نام ریاستی اداروں کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ امیگریشن حکام نے اُن سے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ لے لیا اور انہیں سات گھنٹوں تک ایئر پورٹ پر روکے رکھا۔
انہوں نے بتایا کہ بعد میں حکام نے ان کا پاسپورٹ واپس کر دیا اور کہا کہ وہ برطانیہ کے لیے دوسری پرواز سے جا سکتی ہیں۔
جلیلہ حیدر کے بقول "سات گھنٹے مجھے روکے رکھا، لیکن اِس دوران مجھ سے کسی نے کوئی پوچھ گچھ یا بات نہیں کی۔ مجھے نہ کوئی نوٹس دیا، نہ مجھے وجہ بتائی۔ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ میرا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا گیا۔"
جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ "میں سیاسی اور سماجی کارکن ہوں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہوں اور اِس کے علاوہ جبری لاپتا افراد کے کیسز اور مذہبی اقلیتوں کے کیسز کی وکالت بھی کرتی ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ میں نے کیا ریاست مخالف کام کیا ہے جس پر میرا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔"
جلیلہ حیدر کی رہائی پر ایف آئی اے نے کوئی باضابطہ مؤقف تو نہیں دیا۔ اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کی ہدایت پر جلیلہ حیدر کو رہا کیا۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو کہا کہ جلیلہ حیدرکا نام ای سی ایل میں ہونے کے باعث بیرون ملک سفر سے روکا جا سکتا ہے لیکن گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
جلیلہ حیدر کا نام ای سی ایل میں ہونے کے باعث گزشتہ روز 19 جنوری کو ایف آئی اے نے انہیں برطانیہ روانگی سے روک کر گرفتار کر لیا تھا۔ جلیلہ حیدر صوبۂ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔
جلیلہ حیدر کی گرفتاری اور رہائی پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان' نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ جلیلہ حیدر کو برطانیہ جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن اُنہیں کئی گھنٹوں تک ایئر پورٹ پر روکے رکھنا تشویش ناک ہے۔
جلیلہ حیدر کی گرفتاری اور رہائی پر انسانی حقوق کے کارکن بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکہ میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسمٰعیل نے کہا ہے کہ جلیلہ حیدر کو رہا کرنا کافی نہیں ہے۔
گلالئی اسمعٰیل کے بقول ان کا نام فوری طور پر ای سی ایل سے نکالنا چاہیے۔ ایف آئی اے اور وفاقی کابینہ آئی ایس آئی کو خوش کرنے کے لیے سماجی کارکنوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا بند کرے۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے ٹوئٹ کیا کہ ہم اپنی چیمپیئن جلیلہ کے ساتھ ہیں۔
عمار علی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے یک جہتی کے لیے آپ سب کا شکریہ۔