رسائی کے لنکس

حسین حقانی کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے: اویس لغاری


حسین حقانی (فائل فوٹو)
حسین حقانی (فائل فوٹو)

ایک موقر اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں حسین حقانی نے کہا کہ اُن کی امریکہ میں بطور سفیر لگ بھگ ساڑھے تین سال تک تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون رہا۔

امریکہ میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک اخباری مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے ساتھ اُن کے قریبی روابط کے سبب امریکہ انتہائی مطلوب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن دلان کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔

ایک موقر اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں حسین حقانی نے کہا کہ اُن کی امریکہ میں بطور سفیر لگ بھگ ساڑھے تین سال تک تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون رہا۔ جس سے اُن کے بقول ’’امریکہ کو پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی یا فوج پر انحصار کے بغیر (القاعدہ کے سربراہ) اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی۔‘‘

سابق پاکستانی سفیر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ میں براک اوباما کی 2008 کی صدارتی مہم کے دوران جن افراد سے اُن کی دوستی ہوئی تھی بعد میں اُنھوں نے پاکستان میں امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے لیے مدد مانگی تھی، حسین حقانی کا کہنا تھا کہ جب اُنھوں نے اس وقت کی پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس آگاہ کیا تو اس درخواست کو منظور کر لیا گیا۔

حسین حقانی کے اس دعویٰ کے بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم قومی اسمبلی کی قائم کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حسین حقانی کے اس مضمون کا مقصد مبینہ طور پر توجہ حاصل کرنا ہے۔

’’یہ تو ایک نہایت غیر ذمہ دار چیز ہے۔۔۔ لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔۔۔ جس کو پاکستان کی پوری قوم مکمل طور پر رد کرتی ہے۔‘‘

اویس لغاری نے کہا کہ ایک اہم ملک میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی شخصیت کی طرف سے اس طرح کا بیان قابل افسوس ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ایک تاریخ رہی ہے اور اسلام آباد دوطرفہ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔

’’پاکستان نا صرف نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان ریاست کی سطح پر تعلقات رہے ہیں۔۔۔۔ پاکستان اور امریکہ میں حکومت جو بھی ہو، دونوں ملکوں کے تعلقات کی ایک تاریخ رہی ہے۔۔۔ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرایٹیجک تعلقات ہیں۔ ‘‘

واضح رہے کہ نومبر 2011 میں حسین حقانی سے استعفی طلب کر لیا گیا تھا اور اس کی وجہ حسین حقانی کی طرف سے امریکی قیادت کو لکھے گئے متنازع خط کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنانا بتایا گیا تھا۔

ایک پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنھوں نے حسین حقانی کی ہدایت پر صدر آصف علی زرداری سے منسوب ایک خط مئی 2011 میں اُس وقت کے امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچایا تھا جس میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی برطرفی کے سلسلے میں امریکہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔

منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے متنازع خط ایبٹ آباد میں 2 مئی 2011 کو اُسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے ایک ہفتے بعد امریکی حکام تک پہنچایا۔

تاہم حسین حقانی نے متنازع خط کی تیاری سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG