بھارتی سکیورٹی فورسز نے ہزاروں احتجاجیوں پر آنسو گیس کےگولے پھینکے جو ملک کی ایک جنوبی ریاست کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جمعرات کو حیدرآباد شہر میں ہونےوالے مظاہرے میں آندھرا پردیش کے معاشی طور پر کم ترقی یافتہ علاقے میں ایک علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا۔ ریاستِ آندھرا پردیش سیاسی طور پراِس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ وہاں سے وفاقی پارلیمان میں قانون سازوں کی سب سے بڑی تعداد آتی ہے۔
احتجاجیوں میں قانون ساز، طلبا اور مقامی حکومت کے عہدے دار شامل تھے۔ تلنگانہ کےحامی متعدد قانون سازوں کو گرفتار کیا گیا۔
جمعرات کے دِن آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد میں کاروبار بند پڑا تھا جہاں عالمی کمپنیاں جن میں مائکروسافٹ اور گوگل شامل ہے، وہاں بھارت کے مرکزی دفاتر قائم ہیں۔
تلنگانہ ریاست کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آندھرا پردیش کے شمال اور مغربی خطے کےایک بڑے حصے کو پچھلی کئی حکومتوں نے نظرانداز کیا ہے، جومعاشی ترقی کے حوالے سے دوسروں علاقوں سے بہت پیچھے ہے۔
تلنگانہ کی تحریک نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی کانگریس پارٹی کو آندھرا پردیش سے 33میں سے 11ارکانِ اسمبلی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے رکھی ہے ، اگر پارٹی اِس سال کے اواخر تک نئی ریاست پر اتفاق نہیں کرتی۔
اِس سے قبل اِسی سال، بھارتی حکومت نے آندھرا پردیش کے تنازع کے حل کے لیے ایک رپورٹ جاری کی تھی جِس میں متعدد آپشنز درج تھے۔ ایک میں تلنگانہ علاقے کو علیحدہ ریاست کا درجہ دینے کی سفارش کی گئی تھی، جِس میں ریاستی علیحدگی پسند تحریک کے بنیادی مطالبے کو مانا گیا تھا۔
دوسرے آپشن میں آندھرا پردیش کو متحد رکھنے کے لیے کہا گیا تھا، تاہم تلنگانہ علاقے کو با اختیار کرنے کی غرض سے آئینی اقدام پرزور دیا گیا تھا۔