|
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی صدر نے عدالتی تحقیقات میں مداخلت کرنے پر امریکہ اور روس پر تنقید کرتے ہوئے عدالت پر حملوں کو "قابل افسوس" قرار دیا۔ جج اکانے نے روس کے لیے بھی سخت الفاظ استعمال کئے۔
جج ٹوموکو اکانے نے آئی سی سی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا، "عدالت کو سلامتی کونسل کے ایک اور مستقل رکن کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جیسے کہ یہ کوئی دہشت گرد تنظیم ہے۔"
جج اکانے امریکی سینیٹر لنزی گراہم کے ریمارکس کا حوالہ دے رہی تھیں جب انہوں نے ایک ٹیلی وژن شو میں عدالت کو ایک "خطرناک مذاق" سے تعبیر کیا اور کانگریس پر زور دیا کہ وہ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر پر پابندیاں عائد کرے۔
سینیٹر گراہم کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے جو 20 جنوری کے بعد امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرے گی۔
فوکس نیوز پر آئی سی سی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر گراہم نے کہا کہ اگر امریکہ کےاتحادی، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آئی سی سی کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم ان پر بھی پابندی عائد کریں گے۔"
گراہم گزشتہ ماہ آئی سی سی کے ججوں کی طرف سے پراسیکیوٹر کریم خان کے کی درخواست پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔
عدالت نے اسرائیلی وزیر دفاع اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عسکری رہنما کے خلاف بھی 14 ماہ سے جاری غزہ جنگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
یہ پہلی بار ہے کہ عالمی عدالت نے کسی مغربی اتحادی کے برسر اقتدار رہنما کے خلاف ایسا اقدام اٹھایا ہے۔
آئی سی سی کو وارنٹ گرفتاری پر چیلنجز کا سامنا
گراہم کی دھمکی کو محض خالی خولی الفاظ کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ اس سے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کے سابق پراسیکیوٹر فاتو بینسودا کو افغانستان میں امریکی فوجیوں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی تفتیش کرنےکی وجہ سے ان پر سفری پابندیاں لگانے اور اثاثے منجمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
جج اکانے نے پیر کو روس کے لیے بھی سخت الفاظ کرتے ہوئےکہا کہ "متعدد منتخب عہدیداروں کو سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔"
خیال رہے کہ پوٹن کے خلاف تحقیقات کے جواب میں ماسکو نے کریم خان اور دیگر کے وارنٹ گرفتارینجاری کیے ہیں۔
آئی سی سی کی جانب سے نیتن یاہو اور اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے فیصلے کی عدالت کے ناقدین نے مذمت کی ہے۔
مزید یہ کہ عدالت کے اس فیصلے کی بہت سے ارکان نے برائے نام ہی منظوری دی ہے۔ یہ صورت حال گزشتہ سال روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے یوکرین میں جنگی جرائم کے الزامات میں وارنٹ گرفتاری کی مضبوط حمایت کے بالکل برعکس ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری کو "اشتعال انگیز" قرار دیا تھا۔ انہوں نےاسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم کیا تھا۔
ایک سال قبل بائیڈن نے پوٹن کے وارنٹ کو "جائز" قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ روسی صدر نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ آئی سی سی کا رکن نہیں ہے۔
ادھر فرانس نے کہا کہ وہ وارنٹ گرفتاری کے سلسلے میں "اپنی ذمہ داریوں کا احترام" کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اسے نیتن یاہو کے ممکنہ استثنیٰ دینے پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔
جب پوٹن کے وارنٹ گرفتاری کا اعلان کیاگیا تو فرانس نے کہا تھا کہ وہ عدالت کے "ضروری کام میں اپنا تعاون فراہم کرے گا"۔
ایک اور رکن ملک، آسٹریا نے مشکل سے ہی تسلیم کیا کہ وہ نیتن یاہو کو گرفتار کرے گا لیکن اس نے وارنٹ گرفتاری کو "بالکل ناقابل فہم" قرار دیا۔
اٹلی نے وارنٹ گرفتاری کو "غلط" کہا لیکن کہا کہ وہ اسے گرفتار کرنے کا پابند ہوگا۔
جرمنی نے کہا ہےکہ وہ اس فیصلے کا جائزہ لےگا۔
رکن ملک ہنگری نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے بجائے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
عالمی سلامتی کے امور کی ماہر جینینا ڈل کہتی ہیں کہ اس طرح کے ردعمل سے عالمی انصاف کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، " اس سے واقعی نہ صرف عدالت بلکہ بین الاقوامی قانون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔"
"کلیولینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی" میں بین الاقوامی قانون کی ماہر ملینا سٹیریو نے اے پی کو بتایا کہ عدالت کے خلاف پابندیاں عدالت کے کام میں شریک بہت سے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی کو، جنہوں نے موجودہ پراسیکیوٹرکو نیتن یاہو اور دیگر کی گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست کے بارے میں مشورہ دیا۔
سٹیریو نے کہا کہ پابندیاں بہت بڑا بوجھ ہو سکتی ہیں۔
پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف الزامات
دی ہیگ میں ہونے والے اجلاس میں آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان کو اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔
اکتوبر میں، اے پی نے رپورٹ دی تھی کہ 54 سالہ برطانوی وکیل کو ان الزامات کا سامنا ہے کہ انہوں نے ایک خاتون معاون کو جنسی تعلقات کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کی اور اس سے چھیڑ چھاڑ کی۔
آئی سی سی کے ارکان پر مشتمل نمائندہ تنظیم "اسمبلی آف اسٹیٹس پارٹیز" نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان الزامات کی بیرونی تحقیقات کروائے گی۔
یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا ان الزامات پر آئی سی سی کے 23ویں اجلاس میں بات ہوگی۔
کریم خان نے بھی آئی سی سی کی صدر اکینے کے بعد اجلاس سے خطاب کیا۔ تاہم، انہوں نے اپنے اور عدالت کے خلاف دھمکیوں کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے صرف انتا ہی کہا کہ آئی سی سی کو جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی بھی نہیں دیکھےتھے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)
فورم