بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) نے افغانستان میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکام مبینہ جرائم کی بامعنی تحقیقات نہیں کر رہے ہیں۔
عدالت نے وکیل استغاثہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کابل میں حکام نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ افغانستان نے اس انداز میں تفتیش کی ہے یا تفتیش کر رہی ہے جس میں پراسیکیوٹر کی مطلوبہ تحقیقات کے مکمل دائرہ کار کا احاطہ کیا گیا ہو ۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق آئی سی سی کا یہ فیصلہ عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان کے اعلان کے ایک سال بعد سامنے آیا ہے کہ وہ افغانستان میں آئی سی سی کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کریم خان نے کہا تھا کہ ملک کے نئے طالبان حکمرانوں کے دور میں افغانستان میں "حقیقی اور موثر" اندرونی یعنی ملکی تحقیقات کا امکان نہیں رہا۔
یاد رہے کہ عالمی عدالت کے ججوں نے سن 2020 میں موجودہ وکیل استغاثہ خان کے پیشرو فاتو بینسودا کی جانب سے 2002 میں ان جرائم کی تحیقیقات کا مطالبہ کیا تھا جن کا افغان حکومتی افواج، طالبا ن، امریکی فوجیوں اور امریکی غیر ملکی انٹیلی جنس اہلکاروں کی طرف سے مبینہ طور پر ارتکاب کیا گیا ہے۔
امریکہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ یعنی آئی سی سی کا رکن نہیں اور اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکیوں کی عدالتی تحقیقات کے فیصلے کے نتیجے میں آئی سی سی کے سابق پراسیکیوٹر بینسوڈا پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد بینسوڈا نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا ۔
تاہم افغان حکام کی جانب سے کیس کو اپنے ہاتھ میں لینے کے اعلان کے بعد آئی سی سی تحقیقات کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ آئی سی سی کو آخری حربے کی عدالت سمجھا جاتا ہے جسے 2002 میں ان ممالک میں مبینہ مظالم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے قائم کیا گیا تھا جو مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا تے یا نہیں لا سکتے ۔ اس عمل کو "پرنسپل آف کمپلی مینٹیریٹی" یعنی "تکمیلی اصول" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اے پی کے مطابق گزشتہ سال وکیل استغاثہ خان نے جب عدالت کی تحقیقات کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا تھا کہ اب وہ طالبان اور داعش گروپ کے افغان الحاق والے جرائم پر توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ پھر سے شروع ہونےوالی تفتیش کے دیگر پہلوؤں کو "ترجیح" نہیں دیں گے۔
پراسیکیوٹر خان نے امریکیوں کی طرف سے جرائم کے الزامات سمیت تحقیقات کے دیگر پہلوؤں کو مزید ترجیح نہ دینے کے اپنے فیصلے پرگزشتہ سال کہا تھا کہ ان کا دفتر "شواہد کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے اس حد تک آگاہ رہے گا جس حد تک وہ سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا دفتر "تکمیلی اصول " کے فریم ورک کے اندر احتسابی کوششوں کو فروغ دے گا۔
اس ہفتے آئی سی سی کے ججوں کی طرف سے اس فیصلے کے بعد کہ وہ تحقیقات کے دیگر پہلووں کو، بشمول امریکیوں کی طرف سے ارتکاب جرم جیسے الزامات کے، مزید ترجیح نہیں دیتے، خان نے کہا تھا کہ ان کا آفس اپنے ثبوتوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری اور احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوششیں کرتا رہے گا۔
اس پیر کے عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" کی ایشیا کی ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ افغانستان میں آئی سی سی کی دوبارہ تحقیقات میں امریکی افواج کے مبینہ سنگین جرائم سمیت تنازع کے تمام فریقوں کے جرائم کا احاطہ کرنا چاہیے تاکہ طاقتور قوموں کے ملوث ہونے کی صورت میں بھی انصاف ہو سکے۔