پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے گزشتہ سال نومبر میں لاپتا ہونے والے انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک سے ایک سال بعد اُن کی صاحبزادی کی ملاقات کرائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک سال مکمل ہونے پر پیغام میں کہا ہے کہ ادریس خٹک کی بیٹیاں آج بھی اپنے والد کی واپسی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
ادریس خٹک کی گمشدگی کے سات ماہ بعد حکومت نے ان کے فوج کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی تھی۔ ادریس خٹک کے وکیل کے مطابق ان پر سیکیورٹی اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات رکھنے اور افشا کرنے کا الزام ہے اور ان کے خلاف 'سیکرٹ ایکٹ' کے تحت کارروائی کی جا رہی تھی۔
نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کو گزشتہ سال نومبر میں صوابی کے قریب سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور اس کے سات ماہ کے بعد ان کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
اس ایک سال کے دوران ادریس خٹک کی دو صاحبزادیوں نے مختلف مقامات پر اپنے والد کی رہائی کے لیے آواز بلند کی لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔
نیشنل پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری قیصر خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال بعد ادریس خٹک کی اُن کی بیٹی سے ملاقات کرائی گئی ہے۔
قیصر خان نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ان کی صاحبزادی کی ملاقات ہوئی جس میں ان کے مطابق ادریس خٹک کی صحت اچھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں وہ جلد رہا ہو جائیں گے۔
قیصر خان نے کہا کہ ان پر عائد تمام تر الزامات غلط ہیں اور انہیں غدار قرار دیا جا رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔ اس ایک سال کے دوران ان کے اہل خانہ کو کرب سے گزرنا پڑا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن داخل کی ہے اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادریس خٹک کی جلد بازیابی کو یقینی بنائے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا کی جانب سے دائر آن لائن پٹیشن کا نام "ادریس خٹک کدھر ہیں" رکھا گیا ہے۔ عالمی ادارے نے ادریس خٹک کو وکیل اور فیملی تک رسائی کے ساتھ ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ عالمی قوانین کے تحت سماجی کارکن کو شفاف ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ادریس خٹک کے خلاف جب تک ٹھوس اور عالمی قوانین کے تحت قابلِ شواہد ثبوت نہیں ملتے تب تک انہیں رہا کیا جائے۔
انسانی حقوق کے کارکن اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی ادریس خٹک پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔ ان کی حراست غیر قانونی ہے۔
افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک باعزت شہری ایک سال سے لاپتا ہے اور اس کو بازیاب نہیں کروایا جا رہا۔ ان پر اب تک کوئی باقاعدہ مقدمہ قائم نہیں کیا گیا اور ان پر عائد الزامات کے حوالے سے بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
اُن کے بقول ایک سال کے عرصے کے دوران پہلے بغیر بتائے انہیں غائب رکھنا اور اب بغیر مقدمے کے انہیں قید رکھنا غیرقانونی ہے جس کے لیے ہم آواز اٹھاتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتی وزیر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کو باقاعدہ جرم قرار دیا جائے گا لیکن اب تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
افراسیاب ختک کہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کسی شخص کے قتل سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیوں کہ اس میں لواحقین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
ادریس خٹک کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل
گزشتہ سال 24 نومبر کو ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی۔
رواں برس جون میں ان کے اہلِ خانہ کو بتایا گیا کہ وہ پاکستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کی تحویل میں ہیں اور ان پر 1923 کے سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے جس کے بعد ان کے اہلِ خانہ نے پشاور ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا۔
رواں سال 15 اکتوبر کو پشاور ہائی کورٹ نے پاکستانی فوج کی حراست میں قید سماجی رہنما ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عمل معطل کرنے کا حکم دیا۔
یہ حکم پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ادریس خٹک کے خلاف منگلا میں فوجی عدالت میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی روک دی جائے۔ اور صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔
اس عدالتی حکم نامے کے بعد ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی روک دی گئی ہے۔
نیشنل پارٹی کے قیصر خان نے کہا کہ ادریس خٹک پر الزام لگایا جارہا ہے کہ ملک سے غداری کی ہے۔ ادریس خٹک کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے جو بے بنیاد الزام ہے۔
جبری گمشدگی ’دہشت گردی کا ایک طریقہ‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان سے جبری گمشدگیوں کو قانونی طور پر جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہوا ہے اور کہا ہے کہ جبری گمشدگی دہشت گردی کا ایک طریقہ ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق جبری طور پر غائب کیے جانے والوں کو تشدد اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بھی لاحق ہے اس کے علاہ رہائی کے بعد یہ افراد جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا شکار رہتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران متعدد افراد کے جبری طور پر گمشدہ کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں انسانی حقوق کے کارکنان، نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کے اراکین اور ملک کی طاقت ور فوج کے ناقدین شامل ہیں۔
ادریس خٹک کون ہیں؟
ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
ادریس خٹک کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابقہ فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد رہے ہیں جب کہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
ادریس خٹک نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں اور انہیں گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد سے اکوڑہ خٹک کے راستے پر صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اُن کی گاڑی سے اتار لیا تھا۔