اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا نام ’اِی سی ایل‘ سے نکالنے کی درخواست پر جی ایچ کیو سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بنچ جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران، اسد درانی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمیں انکوائری کے حوالے سے کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔ ایک دفعہ جی ایچ کیو چائے پر بلایا گیا، جہاں صرف گپ شپ ہوئی تھی۔
درخواست گزار اسد درانی نے کہا کہ 26 اور 27 نومبر کو کانفرنس پر جانا ہے اس لیے نام اِی سی ایل سے نکالا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسد درانی اپنی اہلیہ کے ساتھ بیرون ملک اپنے فیملی ممبرز سے ملنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔
ہائی کورٹ نے اِی سی ایل پر نام ڈالنے کی وجوہات پوچھتے ہوئے جی ایچ کیو کی انکوائری رپورٹ اور وزارت داخلہ کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جی ایچ کیو انکوائری کرکے رپورٹ جمع کرائی جائے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے محمد ندیم اختر نے رپورٹ پیش کی اور کہا کہ اسد درانی کی متنازع کتاب لکھنے پر وزارت داخلہ نے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا۔
عدالت میں پیش ہونے والے وزارت دفاع کے نمائندے بریگیڈئیر فلک ناز نے کہا کہ اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے، اسد درانی ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں، جی ایچ کیو میں ان کے خلاف انکوائری زیر التوا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ انکوائری کب مکمل ہوگی تو نمائندہ وزارت دفاع نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ فلک ناز نے کہا کہ سیاستدانوں کو پیسے تقسیم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے پر بھی انکوائری ہورہی ہے۔
وکیل اسد درانی نے کہا کہ ہمیں انکوائری کے حوالے سے کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا، ایک دفعہ جی ایچ کیو چائے پر بلایا گیا جہاں صرف گپ شپ ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک ججمنٹ کے مطابق زیر سماعت کیسز پر ملزم کا نام اِی سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا، ایئرمارشل اصغرخان کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کا نام بھی ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جب تک انکوائری رپورٹ اور وزارت داخلہ کا جواب نہ آجائے کچھ نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 3 دسمبر ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنی کتاب دی سپائی کرونیکلز میں بہت سے موضوعات حقائق کے برعکس بیان کیے،جس پر جنرل اسد درانی کو اپنے بیانات پر پوزیشن واضح کرنے کے لیے 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کتاب میں حقائق کے منافی باتیں ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہیں جس پر لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی، کوئی بھی شخص ملک اور قانون سے بالاتر نہیں ہے جب کہ یہ ایکشن ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر لیا گیا ہے جو نہ صرف حاضر سروس بلکہ ریٹائرڈ افسران پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
اس معاملہ پر 29 مئی کو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام اِی سی ایل پربھی ڈال دیا گیا تھا۔