عدالتِ عظمیٰ نے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اصغر خان کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے چھ روز کی مہلت دیتے ہوئے تمام مدعا علیہان کو 12 جون تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
نوے کی دہائی میں فوج کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ذریعے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے الزام عائد کرتے ہوئے سابق ایئر چیف اصغر خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت کے حکم پر فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق چیف اسد درانی کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔
عدالتِ عظمیٰ ان دنوں اس فیصلے پر عمل درآمد کے معاملے کی سماعت کر رہی ہے اور اس نے گزشتہ سماعت پر نواز شریف سمیت 21 شخصیات کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا تھا۔
بدھ کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "نواز شریف ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں۔"
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بینچ کو بتایا کہ نواز شریف احتساب عدالت میں ہیں اور عدالتِ عظمیٰ میں اپنے وکیل کے ذریعے پیش ہونا چاہتے ہیں۔ اس پر عدالتِ عظمیٰ نے انھیں چھ روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 12 جون تک ملتوی کردی۔
سماعت کے دوران سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی، داخلہ و دفاع کی وزارتوں کے سیکریٹریز اور ایف آئی اے کے سربراہ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے جاوید ہاشمی سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے رقم وصول کی تھی؟ اس پر ہاشمی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا احتساب کیا جا چکا ہے اور ایف آئی اے اور نیب دونوں ہی اس الزام کے شواہد پیش نہیں کر سکے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فریقین کی طرف سے عدالت پر یہ الزام نہیں آنا چاہیے کہ عدالت نے ان کا مؤقف نہیں سنا۔
اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے 2012ء میں دیے گئے اپنے فیصلے میں 1990ء کی دہائی کے اوائل میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی اتحاد تشکیل دینے اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کی ذمہ داری بری فوج کے اُس وقت کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل اسد درانی پر عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
ان دونوں شخصیات نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جنہیں عدالتِ عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ ہی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔