رسائی کے لنکس

عدالت کی جانب سے راجہ ظفر الحق رپورٹ عام کرنے کا حکم


اسلام آباد ہائیکورٹ نے ختم نبوت سے متعلق قانون میں ترمیم کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے راجہ ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا فیصلہ 172 صفحات پر مشتمل ہے جس کے صفحہ نمبر 163 پر راجہ ظفرالحق کمیٹی کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں راجہ ظفرالحق کمیٹی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے فیصلے میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ووٹ بنوانے کیلئے مذہب کا بیان حلفی دینا ضروری قرار دیا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ختم نبوت ﷺ والے معاملے پر ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اس مسئلے کو اہمیت دینے میں ناکام رہی ہے۔ ارکان پارلیمان کی جانب سے ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو وہ اہمیت نہیں دی جتنی دی جانی چاہیے تھی جبکہ پارلیمنٹ آئین پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو بھی بے نقاب کرنے میں ناکام رہی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے رابطہ کیا گیا تھا، چار اکتوبر کو اسپیکر نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کی۔ تمام پارلیمانی جماعتیں سیون بی اور سیون سی کو بحال کرنے پر متفق ہوئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت پانچ ماہ تک جاری رہی، نومبر سے شروع ہونے والی سماعتوں کا سلسلہ سات مارچ تک جاری رہا جس کے بعد نو مارچ کو عدالت عالیہ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

نو مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم کے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ پارلیمینٹ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مزید اقدامات کریں۔

عدالت نے ختم نبوت کو دین کی اساس قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس اساس کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پارلیمنٹ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ شناختی کارڈ، برتھ سرٹیفیکیٹس، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ کیلئے مسلم اور غیر مسلم کی مذہنی شناخت کے حوالے سے بیان حلفی لیا جائے۔

عدالت نے سرکاری، نیم سرکاری اور حساس اداروں میں ملازمت کیلئے بھی بیان حلفی لینے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والے کی تعداد کو خوفناک قرار دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس سول سروس افسران کی مسلم یا غیر مسلم شناخت کے نہ ہونے کو المیہ قرار دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ نادار شناختی کارڈ میں مزہب کی تبدیلی کے حوالے سے مقررہ وقت دیا جائے۔نادار اور محکمہ شماریات کے ڈیٹا میں قادیانیوں کے حوالے سے معلومات میں واضح فرق پر تحقیقات کی جائیں۔

اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کیلئے مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد انہیں ایک مرتبہ پھر پارٹی صدر بنانے کے لئے مسلم لیگ نے انتخابات بل 2017 متعارف کرایا جسے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔

کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کی نشاندہی ہونے پر مذہبی جماعت کی جانب سے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا جس پر (ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف نے اس حوالے سے تحقیقات کے لیے 7 اکتوبر کو راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں احسن اقبال اور مشاہد اللہ خان بھی شامل تھے۔

اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ بعدازاں تحریک لبیک یارسول اللہ کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG