پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں غیر قانونی شکار کے باعث علاقے میں موجود جنگلی حیات اور نایاب پرندوں کی نسل کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پاکستانی کشمیر میں جنگلی حیات کی مختلف اقسام پائی جاتیں ہیں۔ جن میں چار سو سے زائد مختلف نسل کے جنگلی پرندے بھی شامل ہیں جو اپنی خوبصورتی کے باعث بہت مشہور ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کے حکام کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے غیر قانونی شکار کے باعث، مختلف نسل کے طوطے، مور، مرغ زریں، دانگیر، سرخہ اور بٹیر کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان خوبصورت جنگلی پرندوں کو بڑے پیمانے پر شکار کر کے فروخت کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کے ناظم چوہدری محمد رزاق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خوبصورت جنگلی پرندوں کو پکڑ کر گھروں میں بطور فینسی برڈ رکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان پرندوں کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جا رہا ہے۔
طوطے اور دیگر بولنے والے جنگلی پرندوں کو پکڑ کر خوبصورتی کے لیے گھروں میں قید کیا جاتا ہے۔
چوہدری رزاق کے مطابق محکمہ کے پاس عملے کی کمی کی وجہ سے جنگلی پرندوں کے بڑھتے ہوئے غیر قانونی شکار کو روکنا مشکل ہو رہا ہے۔
ان کے بقول لوگوں میں جنگلی حیات کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں موثر آگاہی کے ذریعے جنگلی حیات کے شکار کو کم کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں میں جنگلی حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا رہی ہے۔
چوہدری رزاق کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کا تحفظ کسی ایک محکمے کے بس کی بات نہیں اس کے لیے سب کو کام کرنا ہو گا۔
عالمی فنڈ برائے تحفظ جنگلی حیات کے رابطہ کار برائے پاکستانی کشمیر نعیم اعوان بتاتے ہیں کہ پاکستانی کشمیر میں مقامی کے علاوہ ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کا بھی شکار کیا جاتا ہے جس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محمکہ کی طرف سے غیر قانونی شکار کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے۔ لیکن جنگلی پرندوں کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔